Can an employee take commission for company purchases?
Question:
Is it ok one to receive commission from a Shop where he Purchases things a for a company he works at? I mean they (selling shop) offer him commission if he does companies purchases from them?
Answer:
In the Name of Allah, the Most Gracious, the Most Merciful.
.As-Salāmu ‘Alaykum Wa-Rahmatullāhi Wa-Barakātuh
If someone is employed by a company, they are considered the company’s agent (Wakil), and any discount or benefit granted to the agent automatically belongs to the principal (Mu’akkil).
Therefore, any commission received (being essentially a discount) must be handed over to the company.[1]
And Allah Ta’ala Knows Best.
Azhar Mownah
Student Darul Iftaa
Mauritius
Checked and Approved by,
Mufti Muhammad Zakariyya Desai.
[1]
ولو حط البائع شيئا من الثمن عن الوكيل؛ ثبت ذلك للآمر؛ لأن حط بعض الثمن يلتحق بأصل العقد، ويخرج قدر المحطوط من أن يكون ثمنا.
الفتاوى الهندية لجنة علماء برئاسة نظام الدين البلخي ط دار الفكر (3/ 588):
وإن حط البائع عن الوكيل بعض الثمن فإنه يحطه عن الموكل ولو حط البائع جميع الثمن لا يظهر ذلك في حق الموكل حتى كان للوكيل أن يرجع على الموكل بجميع الثمن ولو وهب البائع بعض الثمن عن الوكيل يظهر ذلك في حق الموكل حتى لم يكن للوكيل أن يرجع على الموكل بذلك القدر ولو وهب كل الثمن لا يظهر ذلك في حق الموكل ولو أبرأه البائع عن جميع الثمن فالجواب فيه كالجواب في هبة جميع الثمن كذا في المحيط.
أحسن الفتاوى للمفتي رشيد أحمد صاحب ط أيج أيم سعيد (8/102)
سوال: دکاندار کمپنی کے ملازم سے کہتا ہے کہ اگر آپ کمپنی کا سامان ہم سے خریدیں گے تو ہم آپ کو اتنے فیصد کمیشن دیں گے۔ کیا ملازم کے لئے یہ کمیشن لینا جائز ہے ؟ بینوا تو جز دا۔
الجواب باسم ملهم الصواب: یہ کمیشن کے نام سے سامان کی قیمت میں رعایت ہے جو کمپنی کا حق ہے ، اس لئے ملازم کا اسے اپنے استعمال میں لانا جائز نہیں، کمپنی کو لوٹانا واجب ہے۔ واللہ سبحانہ و تعالی اعلم۔
آپ کی مسائل اور ان کا حل لمولانا محمد ط مكتبة لدهيانوي (7/393)
کیا فیکٹری کے پُرزے خرید نے یا بنوانے میں ملازم کمیشن لے سکتا ہے؟
سوال : زید ایک نجی فیکٹری میں ملازمت کرتا ہے، اور اس فیکٹری میں مشینوں کے پُرزہ جات جو روزانہ بیسیوں کی تعداد میں ناکارہ ہوتے رہتے ہیں، ان کو مختلف ورکشاپ سے بنواتا ہے یا خریدتا ہے، یہ اس کی ذمہ داری ہے۔ وہ جن کارخانوں اور ورکشاپوں سے بنوا تا یا خریدتا ہے ان سے بنوانے یا خریدنے کا کمیشن لیتا ہے، کیوں ایک جیسے کام کرنے کے کئی کارخانے ہیں، اور اگر وہ کارخانے والے کمیشن دینے سے انکار کرتے ہیں تو وہ وہی چیز کسی اور کارخانے سے کمیشن کی بنیاد پر بنوانا شروع کر دیتا ہے، لہذا کارخانے والے جانتے ہیں کہ اگر ہم کمیشن نہیں دیں گے تو وہ ( زید ) کسی اور سے بنوائے گا، لہذا خوشی سے کمیشن دیتے ہیں، بلکہ بعض تو خود پیشکش کرتے ہیں۔ اس طرح سے وہ کئی ہزار روپے تنخواہ کے علاوہ بناتا ہے، اگر اس سے کہو کہ کمیشن نہ لو، تو وہ دلیل یہ دیتا ہے کہ اگر ایک پرزہ مارکیٹ میں سو روپے کا ہے تو میں فیکٹری کو سو روپے کا ہی دیتا ہوں، کارخانے والے بل بھی سو روپے کے حساب سے دیتےہیں، مگر رقم کی ادائیگی میں دو روپے پچھتر پیسے لیتے ہیں، رقم بھی وہی ادا کرتا ہے، فیکٹری کے مالک نے اسے کمیشن لینے کی ہدایت نہیں کی ہے، اور اگر مالک کو یہ معلوم ہو جائے کہ وہ کمیشن لیتا ہے تو وہ اسے نوکری سے نکال دے۔ مگر اس بات کا یقین ہے کہ مالک کو سو فیصد تاہے یہ کرتا اندازہ ہے کہ وہ کمیشن لیتا ہے مگر پکڑتا یوں نہیں ہے کہ اسے معلوم ہے جو بھی اس منصب پر ہوتا ہے، یہ کرتا ہے، لہذا اسے معلوم ہے کہ اگر میں دوسرا ملازم رکھوں گا تو وہ بھی یہی کرے گا۔
آپ اسلام کی رُو سے بتائیے کہ اس کے یہ پیسے حلال ہیں کہ حرام ہیں؟
جواب : کارخانے کا ملازم کارخانے کا نمائندہ ہے، وہ کام بھی کارخانے کے وکیل اور نمائندے کی حیثیت سے کراتا ہے، اس لئے اس کو جو رعایت ملے گی وہ بھی اس کی نہیں، بلکہ کارخانے کی ہے، اس لئے ملازم کا کمیشن وصول کرنا جائز نہیں، بلکہ خیانت اور بد دیانتی ہے الحق حلال کی کمائی میں برکت ہوتی ہے اور حرام کی کمائی دیکھنے میں تو خوشنما ہے مگر یہ وہ زہر ہے جو اندر ہی اندر سرایت کرتا رہتا ہے اور بالآخر اس شخص کی دنیا وآخرت دونوں کو غارت کر دیتا ہے۔
https://darulifta-deoband.com/home/ur/others/63268
عنوان:كمپنی كے لیے خریداری كرنے پر دوكان كی طرف سے جو كمیشن ملتا ہے كیا وہ جائز ہے؟
سوال:امید ہے مزاج گرامی بخیر و عافیت ہونگے ۔آپکا ادنی شاگرد ایک مسئلے کے متعلق معلوم کرنا چاہتا ہے کہ کسی کمپنی کے لئے سامان سودا خریدنا جو ظاہر ہے زیادہ ہوتا ہے تو اس پر دوکاندار بازار کے حساب سے پورے ریٹ کی رسید بنادیتا ہے جو کمپنی دے گی. پھر اسمیں سے کچھ رقم بطور ایجنٹ یا خاطر داری کے اس خریدار کو دے دیتا ہے جس کو لوگ کمیشن بھی کہتے ہیں. اور چاہے یہ بات کمپنی کے علم میں ہو یا نہ ہو عموماً بڑی کمپنیوں کو اس کمیشن کے معاملے کا علم نہیں ہوتا۔ تو اس کمیشن کے لینے کا کیا حکم ہے ؟ بینوا توجروا جزاکم اللہ خیرا
جواب
بسم الله الرحمن الرحيم
کمپنی کے لیے سامان خریدنے والا ملازم، سامان کی خریداری میں کمپنی کا وکیل ہوتا ہے اور اس کی ساری محنت اور دوڑ وھوپ کمپنی کے حق میں ہوتی ہے، دکان دار کے حق میں نہیں؛ اس لیے اس کا دکان دار سے اپنے لیے کمیشن لینا جائز نہ ہوگا، نیز (بوجہ وکیل) یہ عاقد ہوتا ہے اور متعاقدین میں سے کوئی دوسرے سے کمیشن نہیں لے سکتا اگرچہ اس کا عرف ہو،
شامی (۷: ۹۳، مطبوعہ: مکتبہ زکریا دیوبند) میں ہے: قولہ: ”فأجرتہ علی البائع“ : ولیس لہ أخذ شییٴ من المشتري؛ لأنہ ھو العاقد حقیقة، شرح الوھبانیة، وظاھرہ أنہ لا یعتبر العرف ھنا؛ لأنہ لا وجہ لہ۔
شرح وہبانیہ (۲: ۷۸ مطبوعہ: الوقف المدني الخیري دیوبند) میں ہے: أن البائع لو باع العین بنفسہ بإذن صاحبھا لیس لہ أن یأخذ شیئاً من المشتري؛ لأنہ ھو العاقد حقیقة، ویجب الأجر علی البائع؛ لأنہ فعل بأمرہ۔ واللہ أعلم۔
اور مجمع الضمانات (النوع السابع عشر، ضمان الدلال ومن بمعناہ ص ۵۴ط دار عالم الکتب، بیروت) میں ہے: الدلال لو باع العین بنفسہ بإذن مالکہ لیس لہ أخذ الدلالة من المشتري إذ ھو العاقد حقیقة، وتجب الدلالة علی البائع إذ قبل بأمرالبائع۔
اور اگر اس کمیشن کو زیادہ خریداری کا انعام یا ثمن میں رعایت قرار دی جائے تو چوں کہ وکیل نے سامان کی خریداری کمپنی کے لیے کی ہے، نہ کہ اپنے لیے؛ اس لیے اس انعام یا رعایت کی حق دار کمپنی ہوگی نہ کہ وکیل-
اور کوئی ملازم کم پیسے دے کر زیادہ پیسوں کا بل بنواتا ہے اور بیچ کے پیسے اپنی جیب میں رکھ لیتا ہے تو یہ بلا شبہ کمپنی کی چوری اور کمپنی کے ساتھ دھوکہ دہی ہے، جو شریعت اسلام میں قطعاً حرام وناجائز ہے۔ اور کسی مسلمان کے لیے ایسا بل بنانا بھی درست نہیں، قال اللّٰہ تعالی: ﴿ ولا تعاونوا علی الإثم والعدوان ﴾ (سورہ مائدہ، آیت: ۲)۔
واللہ تعالیٰ اعلم
دارالافتاء،
دارالعلوم دیوبند