Paying fidya for missed ṣalāhs
Question:
Sheikh with regards to “unperformed salat”. Can this be part of my will & how will this be settled if I die without performing my qadha salahs?
Answer:
In the Name of Allah, the Most Gracious, the Most Merciful.
As-Salāmu ʿAlaykum Wa-Raḥmatullāhi Wa-Barakātuh
In the case under discussion, a person who has qaḍāʾ ṣalāh outstanding must make every possible effort to perform them during his lifetime.
If, however, he is unable to complete them before death, he should include in his will that fidya for the missed ṣalāhs be paid from his estate. The amount of fidya to be paid is equivalent to the value of Ṣadaqat al-Fiṭr for each missed Farḍ and Witr ṣalāh.
After his death, if the fidya amount exceeds one-third of the estate, it may only be covered with the consent of all heirs provided they are all mature. Any heir who wishes to pay the balance from personal funds is also permitted to do so. [1]
And Allah Taʿāla Knows Best.
Baba Abu Bakr
Student –Darul Iftaa
Accra, Ghana
Checked and Approved by
Mufti Muhammad Zakariyya Desai
[1] «الجواهر من فقه الحنفية» طاهر بن شيخ الإسلام بن قاسم بن أحمد الخوارزمي الأنصاري (من علماء القرن 8 هـ) الناشر: دار السمان – إسطنبول في صفة الصلاة والمسائل (ص281):
«إذا مات الرجل، وعليه صلوات فائتة، وأوصى بأن تعطى كفارة صلواته لكل مكتوبة نصف صاع من بر، وللوتر نصف صاع، ولصوم يوم نصف صاع، كذا أيضا في “الفتاوى الظهيرية”. وإنما تعطى من ثلث ماله. وإن لم يترك مالا: يستقرض ورثته نصف صاع من بر يدفع إلى مسكين، ثم يتصدق، ثم وثم، حتى يتم لكل صلاة ما ذكرنا كذا أيضا في “واقعات الحلواني”.»
«الفتاوى العالمكيرية = الفتاوى الهندية» الكتاب: الفتاوى العالمكيرية المعروفة بالفتاوى الهندية لعلامة الهمام مولانا الشيخ نظام الدين وجماعة اهل العلم1086 ه: الناشر: المطبعة الكبرى الأميرية ببولاق مصر كتاب الصلاة (1/ 125):
«في الملتقط ولو أمر الأب ابنه أن يقضي عنه صلوات وصيام أيام لا يجوز عندنا كذا في التتارخانية إذا مات الرجل وعليه صلوات فائتة فأوصى بأن تعطى كفارة صلواته يعطى لكل صلاة نصف صاع من بر وللوتر نصف صاع ولصوم يوم نصف صاع من ثلث ماله وإن لم يترك مالا يستقرض ورثته نصف صاع ويدفع إلى مسكين ثم يتصدق المسكين على بعض ورثته ثم يتصدق ثم وثم حتى يتم لكل صلاة ما ذكرنا، كذا في الخلاصة.»
«حاشية ابن عابدين = رد المحتار ط الحلبي» محمد أمين، الشهير بابن عابدين [ت 1252 هـ] الناشر: شركة مكتبة ومطبعة مصطفى البابي الحلبي وأولاده بمصركتاب الصلاة (2/ 72):
(قوله وعليه صلوات فائتة إلخ) أي بأن كان يقدر على أدائها ولو بالإيماء، فيلزمه الإيصاء بها وإلا فلا يلزمه وإن قلت، بأن كانت دون ست صلوات، لقوله عليه الصلاة والسلام «فإن لم يستطع فالله أحق بقبول العذر منه» وكذا حكم الصوم في رمضان إن أفطر فيه المسافر والمريض وماتا قبل الإقامة والصحة، وتمامه في الإمداد. مطلب في إسقاط الصلاة عن الميت.
(قوله يعطى) بالبناء للمجهول: أي يعطي عنه وليه: أي من له ولاية التصرف في ماله بوصاية أو وراثة فيلزمه ذلك من الثلث إن أوصى، وإلا فلا يلزم الولي ذلك لأنها عبادة فلا بد فيها من الاختيار، فإذا لم يوص فات الشرط فيسقط في حق أحكام الدنيا للتعذر، بخلاف حق العباد فإن الواجب فيه وصوله إلى مستحقه لا غير، ولهذا لو ظفر به الغريم يأخذه بلا قضاء ولا رضا، ويبرأ من عليه الحق بذلك إمداد.
ثم اعلم أنه إذا أوصى بفدية الصوم يحكم بالجواز قطعا لأنه منصوص عليه. وأما إذا لم يوص فتطوع بها الوارث فقد قال محمد في الزيادات إنه يجزيه إن شاء الله تعالى، فعلق الإجزاء بالمشيئة لعدم النص، وكذا علقه بالمشيئة فيما إذا أوصى بفدية الصلاة لأنهم ألحقوها بالصوم احتياطا لاحتمال كون النص فيه معلولا بالعجز فتشمل العلة الصلاة وإن لم يكن معلولا تكون الفدية برا مبتدأ يصلح ماحيا للسيئات فكان فيها شبهة كما إذا لم يوص بفدية الصوم فلذا جزم محمد بالأول ولم يجزم بالأخيرين، فعلم أنه إذا لم يوص بفدية الصلاة فالشبهة أقوى.
واعلم أيضا أن المذكور فيما رأيته من كتب علمائنا فروعا وأصولا إذا لم يوص بفدية الصوم يجوز أن يتبرع عنه وليه. والمتبادر من التقييد بالولي أنه لا يصح من مال الأجنبي. ونظيره ما قالوه فيما إذا أوصى بحجة الفرض فتبرع الوارث بالحج لا يجوز، وإن لم يوص فتبرع الوارث إما بالحج بنفسه أو بالإحجاج عنه رجلا يجزيه. وظاهره أنه لو تبرع غير الوارث لا يجزيه، نعم وقع في شرح نور الإيضاح للشرنبلالي التعبير بالوصي أو الأجنبي فتأمل، وتمام ذلك في آخر رسالتنا المسماة شفاء العليل في بطلان الوصية بالختمات والتهاليل.
دارالافتاء: جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن
فوت شدگان کی نمازوں کا کفارہ
سوال
کچھ سکالر سے یہ سنا ہے کہ فوت شدگان کی نمازوں کا کفارہ دیا جا سکتا ہے جو کہ کچھ مال کی صورت میں ہے ۔ یہ بات عقل تو نہیں مانتی، لیکن آپ حضرات سے گزارش ہے کہ قرآن اور سنت کی روشنی میں راہ نمائی فرمائیں؛ تاکہ جو لوگ اس پر عمل پیرا ہیں ان کی اصلاح بھی ہوسکے اور ہمارے علم میں اضافہ بھی!
جواب
قضا نمازوں کافدیہ زندگی میں ادا کرنا صحیح نہیں ہے، بلکہ زندگی میں قضا نمازوں کو ادا کرنا ہی لازم ہے، یعنی فوت شدہ نمازوں کا فدیہ اور کفارہ یہی ہے کہ ان نمازوں کو ادا کیا جائے، اور ادا کرنے کے بعد تاخیر کی وجہ سے جو گناہ ہوا ہے اس سے توبہ کرنا بھی ضروری ہے، زندگی میں قضا نمازوں کے بدلےمیں صدقہ دینے سے کچھ نہیں ہوگا، اس لیے ان نمازوں کو ہر حال میں ادا کرنا لازم ہے ۔
لیکن اگر کوئی شخص ایسی حالت میں مرگیا اور اس کے ذمہ قضا نمازیں رہ گئیں اور وہ زندگی میں ان کو ادا نہ کرسکا، تو اب موت کے بعد اس کا فدیہ دینا جائز ہوگا، فقہاء نے اس کو روزوں پر قیاس کیا ہے کہ اگر کوئی شخص بیماری سے عاجز ہوکر روزہ نہ رکھ سکتا ہو اور مرنے سے پہلے اس کو صحت یابی کی امید بھی نہ ہو تو شریعت نے اس کو ایسی حالت میں زندگی میں ورنہ مرنے کے بعد فدیہ دینے کی اجازت دی ہے اور زندگی میں روزوں کا فدیہ ادا کرنے کے بعد اگر مرنے سے پہلے روزہ رکھنے کی طاقت حاصل ہوجائے اور وقت بھی ملے تو ان روزوں کی قضا کرنا ضروری ہوگا اور فدیہ ادا کرنا باطل ہوجائے گا، تو جس شخص کی بیماری یا کسی عذر کی وجہ سے نمازیں رہ گئی ہوں اور وہ مرتے دم تک اس کو ادا نہ کرسکا تو اب وہ مرنے سے پہلے وصیت کرجائے ، مرنے کے بعد اس کی وصیت کے مطابق ایک تہائی ترکہ میں سے اس کی نمازوں کا فدیہ ادا کرنا ضروری ہوگا، اگر اس نے وصیت نہ کی ہو اور تمام عاقل بالغ ورثاء اپنی خوشی مرحوم کی طرف سے فدیہ ادا کردیں تو یہ بھی جائز ہے، اور دونوں صورتوں میں روزے پرقیاس کرکے فقہاء یہ فرماتے ہیں اللہ کی ذات سے امید ہےیہ نمازوں کا فدیہ ان شاء اللہ قبول فرمالیں گے۔
مذکورہ تفصیل سے یہ واضح ہوگیا کہ نمازیں اس لیے چھوڑدینا کہ اس کا فدیہ ادا کردوں گا قطعاً جائز نہیں ہے، بلکہ نماز چھوڑنا کبیرہ گناہ ہے، اور نماز فوت ہونے کی صورت میں ہر حال میں اس کو قضا بھی کرنا ہے اور توبہ بھی کرنی ہے، اور اگر کوشش کے باوجود قضا نہ کرسکا تو اس صورت میں فدیہ دیا جاتا ہے۔
نیز ایک نماز اور ایک روزہ کا فدیہ صدقہ فطر کی مقدار کے برابر ہے۔ فدیہ ادا کرنے کی صورت میں یومیہ چھ نمازوں (پنج وقتہ فرض نماز اور وتر) کے حساب سے فدیہ ادا کرنا ہوگا۔