Travellers Sleeping in Masjid
Question:
Asssalamualaikum
Can a traveler sleep at a masjid if the authorities of the masjid have no issues with that?
is it something allowed but not desirable or perfectly fine?
What are the guidelines if I happen to sleepover? Any restrictions
Can I use the fan during the night?
Please let me know.
Answer:
In the Name of Allah, the Most Gracious, the Most Merciful.
As-Salāmu ‘Alaykum Wa-Rahmatullāhi Wa-Barakātuh.
1. It is permissible, without any element of dislike, for a traveller to sleep in the Masjid.
2. Guidelines for sleeping in the Masjid:
· Full observance of the etiquette of Masaajid: while in the Masjid, one must avoid noise, laughter, and idle talk, maintain cleanliness, and make the intention of I’tikaaf.
· One should not cause any inconvenience to worshippers. For e.g., at the time of Azaan, he must wake up, and not obstruct the regular activities, prayers, or gatherings of the Masjid.
· When one needs to sleep in the Masjid, he should spread his own cloth or bedding, so that if he experiences nocturnal emission (Ihtilaam), the mats or flooring of the Masjid do not become impure. If such an occurrence takes place, he should leave the mosque promptly, and upon returning after Ghusl, he should immediately clean the area if it has become impure.
3. As for the use of electricity and fans in the Masjid, if there is a designated area for Musaafireen (travellers) or brothers of the Tabligh Jama’at, permissibility is generally understood. However, if no such arrangement exists and one is sleeping in the Masjid area, then it is only permissible to use the fans and electricity if granted permission by the authorities or if such permission is customarily recognized.
Nevertheless, it is better to give an appropriate amount of charity to the Masjid when making use of these facilities.[1]
And Allah Ta’ala Knows Best.
Azhar Mownah
Student Darul Iftaa
Mauritius
Checked and Approved by,
Mufti Muhammad Zakariyya Desai.
[1]
وفي «الأجناس:» لا بأس بالنوم في المسجد.
تبيين الحقائق شرح كنز الدقائق لعثمان بن علي فخر الدين الزيلعي (المتوفى: ٧٤٣ هـ) المطبعة الكبرى الأميرية – بولاق (1/ 352):
(فرع) في المجتبى وفي جامع الإسبيجابي لغير المعتكف أن ينام في المسجد مقيما كان أو غريبا مضطجعا أو متكئا رجلاه إلى القبلة أو لا فالمعتكف أولى
فتاوى قاضي خان للحسن بن منصور القاضي خان م 593 ط العلمية (1/64)
ولا بأس بالجلوس في المسجد لغير الصلاة لكن لو تلف به شيء يضمن، وقيل لا بأس للغريب أن ينام في المسجد، ويكره الجلوس في المسجد للمصيبة ثلاثة أيام
الفتاوى الهندية لجنة علماء برئاسة نظام الدين البلخي ط دار الفكر (5/ 321):
ولا بأس للغريب ولصاحب الدار أن ينام في المسجد في الصحيح من المذهب، والأحسن أن يتورع فلا ينام، كذا في خزانة الفتاوى.
الفتاوى الهندية لجنة علماء برئاسة نظام الدين البلخي ط دار الفكر (2/ 459):
ولو وقف على دهن السراج للمسجد لا يجوز وضعه جميع الليل بل بقدر حاجة المصلين ويجوز إلى ثلث الليل أو نصفه إذا احتيج إليه للصلاة فيه، كذا في السراج الوهاج ولا يجوز أن يترك فيه كل الليل إلا في موضع جرت العادة فيه بذلك كمسجد بيت المقدس ومسجد النبي صلى الله عليه وسلم والمسجد الحرام، أو شرط الواقف تركه فيه كل الليل كما جرت العادة به في زماننا، كذا في البحر الرائق.
إن أراد الإنسان أن يدرس الكتاب بسراج المسجد إن كان سراج المسجد موضوعا في المسجد للصلاة قيل: لا بأس به وإن كان موضوعا في المسجد لا للصلاة بأن فرغ القوم من صلاتهم وذهبوا إلى بيوتهم وبقي السراج في المسجد قالوا: لا بأس بأن يدرس به إلى ثلث الليل، وفيما زاد على الثلث لا يكون له حق التدريس، كذا في فتاوى قاضي خان.
حاشية الطحطاوي على مراقي الفلاح للشيخ أحمد بن محمد بن إسماعيل الطحطاوي المتوفى 1231 ط العلمية (ص704):
قوله: “يفسد اعتكافه” لعدم الضرورة در وقيدت هذه الأشياء بالمعتكف لأن غيره يكره له المبايعة فيه مطلقا والأكل والنوم قيل إلا لغريب كما في الأشباه وفي المجتبى ولغير المعتكف أن ينام في المسجد مقيما كان أو غريبا مضطجعا أو متكئا رجلاه إلى القبلة أو إلى غيرها فالمعتكف أولى اهـ لكن قوله رجلاه إلى القبلة محل نظر لما نصوا عليه من كراهة مد الرجل إليها فالحاصل أن في تعاطي هذه الأشياء في المسجد لغير المعتكف قولين والحمد لله الذي جعل دين الإسلام سهلا لا حرج فيه.
فتاوى محمودية لمحمود حسن گنگوهی بترتيب جديد ط مكتبةمحمودية (22/210)
مسجد کے پنکھا کا استعمال
سوال:۔ (1) ہماری مسجد کے امام صاحب دس بجے شب میں اعتکاف کی نیت کرتے ہیں ، اور مسجد میں سو جاتے ہیں، اور مسجد کے سیکھے استعمال کرتے ہیں، اور امام صاحب دو بجے شب میں اعتکاف ختم کر دیتے ہیں، پنکھوں کا چلانا جائز ہے یا نہیں؟
(۲) چند روزه دار حضرات مسجد کا پنکھا استعمال کرتے ہیں اور مسجد میں سو جاتے ہیں، ویسے تو روزه خود عبادت ہے فرض ہے ، تو ان لوگوں کو سیکھے کا استعمال کرنا جائز ہے یا نا جائز ؟
(۳) مسجد کا پنکھا چلا کر کلام پاک دور کرنا جائز ہے یا نا جائز ؟ اور مسجد میں سونا جائز ہے یا نا جائز ؟
الجواب حامد أو مصلياً
(1) جس نے مسجد کے لئے پنکھا دیا ہے، اگر پنجگانہ نماز کے لئے دیا ہے تو دیگر أوقات میں اس پنکھے کو استعمال نہ کیا جائے ، امام اور دوسرے لوگ اس میں سب برابر ہیں لیے اسکا جواب بھی نمبرا: سے ظاہر ہے۔ اس کا حال بھی یہی ہے۔
تنبیہ : بہتر یہ ہے کہ یہ پنکھا استعمال کرنے والے حضرات مسجد کو پنکھا استعمال کرنے کی وجہ سے جس قدر مصارف زیادہ ہوں دیدیں اور جس نے مسجد کو پنکھا دیا ہے، وہ بھی دوسرے اوقات میں استعمال کرنے کی اجازت دیدے ، غرض نہ مسجد پر مصارف زیادہ پڑیں نہ پنکھا دینے والے کے منشاء کے خلاف ہو۔ فقط واللہ سبحانہ تعالیٰ اعلم
فتاوى محمودية لمحمود حسن گنگوهی بترتيب جديد ط مكتبةمحمودية (22/211)
بجلی کا پنکھا غیر اوقات نماز میں چالو کرنا
سوال: مسجدوں میں بجلی اور پنکھے وغیرہ لگے ہوئے ہیں ، نماز کے علاوہ دوسری ضروریات کے واسطے ان کا استعمال جائز ہے یا نہیں؟ جیسے تلاوت کلام پاک، مطالعه کتب تبلیغی تعلیم و غیره؟
الجواب حامداً و مصلياً
سیکھے چونکہ نماز کے وقت استعمال کرنے کے لئے لگائے گئے ہیں، ان کو دیگر اوقات میں استعمال کرنے کی اجازت نہیں ہم اوقات نماز میں جب نماز کے لئے کھولے جائیں تو مطالعہ کی بھی اجازت ہے شرط الواقف كنص الشارع فقط واللہ سبحانہ تعالیٰ اعلم-
فتاوى محمودية لمحمود حسن گنگوهی بترتيب جديد ط مكتبةمحمودية (22/219)
تبلیغی جماعت کے لئے اشیاء مسجد کا استعمال
سوال:۔ (۱) یہاں جامع مسجد شہر علی گڑھ میں تبلیغی جماعتیں آتی رہتی ہیں، اور اپنا قیام مسجد میں کرتی ہیں اور اپنا اجتماع مسجد میں کرتی ہیں، نماز ظہر کی جماعت اور سنت و نفل سے فراغت کے بعد وہ اپنی کتاب پڑھنا، دین کی باتیں کرنا شروع کرتی ہیں، اسی درمیان میں وہ مسجد کا پنکھا بھی چلاتی ہیں، بجلی خرچ کرتی ہیں اور مسجد کا پنکھا استعمال کرتی ہیں، اس کا خرچ بھی مسجد کے وقف پر پڑتا ہے، جب کہ مسجد کے وقف کی انتظامیہ کمیٹی کی جانب سے صرف اوقات جماعت میں پنکھا استعمال کرنے کی اجازت ہے لہذا دریافت طلب امر یہ ہے کہ آیا ان جماعتوں کو اپنے اوقات میں مسجد کا پنکھا بجلی وغیرہ استعمال کرنا شرعاً جائز ہے یا نہیں؟ یا
(۲) کیا مسجد کے وقف کی انتظامیہ کمیٹی کو شرعا یہ جائز ہے کہ وہ اس قسم کے اخراجات مسجد کی وقف آمدنی پر ڈالیں۔
(۳) کیا مسجد کی وقف انتظامیہ کمیٹی کو شرعاً یہ اختیار ہے کہ وہ کسی بھی فرد یا جماعت کو غیر اوقات فرض نماز یا جماعت میں مسجد کی املاک استعمال کرنے کی اجازت دے۔
(۴) کیا یہ شرعاً جائز ہے کہ کوئی فرد یا جماعت کوئی کتاب پڑھتے وقت بجلی کا پنکھا استعمال کرے اور بجلی کا خرچ اپنی جیب سے ادا کرے یا اپنے ٹھہر نے اور سونے کے لئے بجلی کا پیکھا استعمال کرے۔
(۵) کیا مسجد کی املاک کو غیر نماز کے مقصد میں استعمال کرنا جائز ہے؟
الجواب حامد أو مصلياً
وقف مسجد کا پیسہ مسجد کی اور وقف کے تحت وقف کی انتظامیہ کمیٹی کی نگرانی و تجویز سے صرف کیا جاتا ہے ، منشاء واقف کے خلاف خرچ کرنے کی اجازت نہیں بلکہ کمیٹی کو بھی حق نہیں کہ وہ اجازت دے۔
(1) اجازت نہیں ہے (۲) اجازت نہیں ہے (۳) صرف اوقات جماعت تک محدود نہ رکھے ، بلکہ جماعت سے قبل اور بعد کی سنتوں و نفلوں نیز مسبوق کی نماز پوری ہونے تک کی گنجائش دیدی جائے کے معمولی تاخیر ہو جائے تو وہ قابل تسامح ہے۔
(۴) یہ جماعتیں دینی کام نماز وغیرہ ہی کیلئے نکتی ہیں اور مساجد میں قیام کرتی ہیں، اور ان کے اس کام سے بہت بڑا نفع ہے جس کا انکار نہیں کیا جا سکتا ، ان جماعتوں کو مسجد میں رہنے ٹھہر نے اپنی کتاب سنانے کی اجازت دیدی جائے ، اور ان کے ساتھ پورا تعاون کیا جائے، جماعتیں اوقات جماعت و نماز کے علاوہ بجلی کو استعمال کریں اور اس کا صرفہ دیدیں یہ صرفہ مسجد پر نہ ڈالیں، انتظامیہ کمیٹی کو وہ صرفه ان جماعتوں سے قبول کر لینا چاہئے۔
(۵) ان جماعتوں کا قیام نماز کے لئے ہے، مقصد نماز کے خلاف کسی غلط یا غیر مقصود کیلئے نہیں ، اس لئے اگر یہ مسجد کا لوٹا، چٹائی ہل، ڈول، رستی استعمال کریں تو اس میں رکاوٹ نہ ڈالی جائے البتہ جو مصارف زیادہ ہوں بھلی کیلئے وہ ان سے وصول کر لئے جائیں۔ فقط واللہ سبحانہ تعالیٰ اعلم
فتاوى محمودية لمحمود حسن گنگوهی بترتيب جديد ط مكتبةمحمودية (22/416)
مسجد میں ٹھہرنا اور پنکھا استعمال کرنا
سوال: مسجد میں کون لوگ قیام کر سکتے ہیں اسی طرح مسجد کے اندر رات بھر پنکھا چلا کر بجلی کا استعمال کرنا جائز ہے یا نا جائز ؟ اسی طرح مسجد کے اندر بجلی اور پنکھے رات کے کون سے حصہ تک چلانا ، استعمال کرنا مسئلہ سے ثابت ہیں؟
الجواب حامد أو مصلياً: جو شخص معتلف ہو یا مسافر ہوا اور اسکا کہیں ٹھکانہ نہ ہو اسکو مسجد میں ٹھہرنے کی اجازت ہے اور جو شخص نماز تہجد و فجر کے اہتمام کی خاطر مسجد میں رہے اس کیلئے بھی اجازت ہے، لیکن اپنے لئے مسجد کو آرام گاہ نہ بنایا جائے ،مسجد کا پنکھا اور مسجد کی روشنی اصالہ نماز کے لئے ہے،
جب تک نمازی عامہ نماز پڑھتے ہیں اس وقت تک استعمال کریں، اگر علاوہ نماز کے دیگر مقاصد کیلئے استعمال کریں تو اس کے معاوضہ میں مسجد کی خدمت بھی کر دیا کریں، فتاوی عالمگیری میں چراغ مسجد کے متعلق مسئلہ مذکور ہے لیے فقط واللہ سبحانہ تعالیٰ اعلم
دارالافتاء، دارالعلوم دیوبند
عنوان: مسجد میں سونا اور اس كا پنكھا استعمال كرنا؟
سوال: مسجد میں ایک نمازی 4-5 پنکھا استعمال کرتے ہیں نماز پڑھ کر سوجاتے ہیں، اگر ہم کہتے ہیں تو ان کا کہنا ہے کہ مسجد ٹھنڈی ہو جائے گی ، کیا جب وہ استعمال کررہے ہیں تو یہ جائز ہے ؟ اگر ہم پنکھا بند کرتے ہیں تو کیا یہ گناہ ہوگا؟ وہ کہتے ہیں کہ میری عبادت میں کھال ڈالیں رہے ہو، میں مسجد میں خادم ہوں۔
بسم الله الرحمن الرحيم
مسجد عبادت خداوندی کی جگہ ہے، سونے اور آرام کرنے کی جگہ نہیں ہے؛ اس لیے کسی مقامی شخص کا مسجد میں سونے کا معمول بنانا اور بالخصوص چار پانچ پنکھے استعمال کرنا جائز نہیں ہے اور اگر کوئی شخص مسجد کا خادم ہو اور مسجد کمیٹی کی طرف سے اس کو مسجد میں سونے کی اجازت ہو، تو وہ بقدر ضرورت پنکھا استعمال کرسکتا ہے اور ظاہر ہے کہ ایک آدمی کے لیے ایک پنکھا کافی ہے، باقی مسجد کی انتظامیہ کمیٹی یا متولی کو از خود نظم بناکر سب کے علم میں لے آنا چاہیے، عام مصلیوں کو مسجد کے انتظام میں دخل نہیں دینا چاہیے، ہاں اگر کسی نمازی کی طرف سے مسجد کے حق میں کوتاہی نظر آئے، تو انتظامیہ یا متولی کو متوجہ کرنے میں مضائقہ نہیں ۔ واللہ تعالیٰ اعلم
دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن
مسجد میں سونا اور اس کی بجلی استعمال کرنا
سوال
رمضان میں مسجد میں سونا، پنکھے اور ایئر کولر چلانا اور جنریٹر چلانا کیسا ہے؟
جواب
مسجد کی بجلی انہیں مصارف میں صرف کرنا ضروری ہے جو مسجد اور مسجد کی ضروریات سے متعلق ہوں، اور نمازیوں کے لیے مسجد کی بجلی عبادت کے علاوہ اپنے ذاتی استعمال میں لانے کی شرعاً اجازت نہیں، البتہ دورانِ عبادت مسجد کی بجلی استعمال کرنے کی شرعاً اجازت ہے، اور معتکف (خواہ سنت اعتکاف میں ہو یا نفلی اعتکاف میں) مسجد میں رہتے ہوئے تمام وقت اعتکاف کی عبادت میں مشغول رہتا ہے، لہذا مسجد کی بجلی استعمال کرنا ذاتی استعمال کے حکم میں نہیں، تاہم اس دوران مسجد میں موبائل چارج کرنا چوں کہ معتکف کی شرعی ضرورت نہیں، لہذا اس کی اجازت نہیں، پس ذاتی مقصد میں بجلی استعمال کرنے کی صورت میں استعمال شدہ بجلی کی مد میں کچھ رقم مسجد کے اخراجات کی میں جمع کرانا چاہیے۔
نیز مسافر اور معتکف کے علاوہ افراد کے لیے مسجد میں کھانا، پینا اور سونا مکروہ ہے، مسافر اور معتکف کے لیے مسجد میں کھانے، پینے اور سونے کی گنجائش ہے، واضح ہو کہ مسجد بنانے کا مقصد ذکراللہ اور عبادتِ الہٰی ہے، اس طرح کے کاموں کے لیے نہیں، اس لیے عام حالات میں تو وہی حکم ہے جو اوپر مذکور ہے، البتہ بامر مجبوری کسی کو مسجد میں سونا پڑتا ہے تو مندرجہ ذیل شرائط کے ساتھ اس کی گنجائش ہوگی:
1- مسجد کے آداب کا پورا لحاظ رکھے، جتنی دیر مسجد میں رہے شور و غوغا، ہنسی مذاق اور لا یعنی گفتگو سے پرہیز کرے، صفائی کا پورا اہتمام رکھے اور اعتکاف کی نیت کر لے۔
2- نمازیوں کو اس سے کسی قسم کی تکلیف نہ پہنچے، اذان ہوتے ہی اٹھ جائے اور بعد میں بھی نمازیوں کے سنن و نوافل یا ذکر و تلاوت وغیرہ میں مشغول رہنے تک ان کی عبادت میں خلل نہ ڈالے۔
3- اگر طلبہ ہوں تو باریش یا کم از کم آدابِ مسجد سے واقف اور باشعور ہوں، بے شعور بچوں کو مسجد میں سلانا جائز نہیں۔
معتکف اور ایسا مسافر جس کا کہیں ٹھکانہ نہ ہو، اس کا مسجد میں سونا درست ہے، اور تبلیغی جماعت والے اگر صفائی اور مسجد کے ادب واحترام کا لحاظ رکھیں تو اُن کے لیے مسجد میں سونے کی گنجائش ہے۔
نیز اگر مسجد میں سونے کی ضرورت پیش آئے تو اپنا کپڑا یا بستر بچھاکر سونا چاہیے، تاکہ اگر احتلام ہوجائے تو مسجد کی چٹائی اور فرش ناپاک نہ ہو۔ اور جب احتلام کی صورت پیش آجائے تو احتیاط کے ساتھ جلد از جلد مسجد سے نکل جائے۔ اور اگر خدا نخواستہ مسجد کی جگہ ناپاک ہوجائے، تو غسل سے واپس آکر فوراً وہ جگہ پاک کرنے کا اہتمام کرے۔
خلاصہ یہ ہے کہ غیرمعتکف و غیر مسافر کا مسجد میں سونا مکروہ ہے، جو حضرات نماز یا کسی دوسری عبادت کے لیے مسجد میں جائیں وہ اِعتکاف کی نیت کرلیا کریں، اس کے بعد نماز و دیگر اعمال سے فارغ ہوکر اگر بوجہ مجبوری کچھ دیر وہاں سونا چاہیں تو اس کی گنجائش ہوگی، بشرطیکہ مندرجہ بالا شرائط کی پابندی کریں۔ نیز مذکورہ تفصیل کی روشنی میں جن صورتوں میں سونے کی گنجائش ہے، ان میں مسجد کی بجلی استعمال کرنے، مسجد کا ائیر کولر یا جنریٹر چلانے کی بھی گنجائش ہوگی۔