Performing Asr in Mithl Awwal (Shafi’i/Sahibayn time)
Question:
In a madressa, where there is completely hanafi students, is it permissible to read asr Salaah in the shafiee time or rather imam Abu hanifas two students statement. The reason why the madressa closes early in Ramadan, and the students might just not read their asr Salaah so is it allowed for us to read asr in the shafie time?
Answer:
In the Name of Allah, the Most Gracious, the Most Merciful.
As-Salāmu ‘Alaykum Wa-Rahmatullāhi Wa-Barakātuh.
In principle, if Asr Salaah is performed at Mithl Awwal (Shafi’i/Sahibayn time), the Salaah will be valid, and there will be no need to repeat it.
In the inquired scenario, there is room for the permissibility of performing Asr at that time. However, this should not be made a permanent practice, as it would be akin to abandoning Imaam Abu Hanifa’s opinion, which is the preponderant view in the Mazhab.[1]
And Allah Ta’ala Knows Best.
Azhar Mownah
Student Darul Iftaa
Mauritius
Checked and Approved by,
Mufti Muhammad Zakariyya Desai.
[1]
حاشية ابن عابدين للإمام محمد أمين بن عمر المتوفى ١٢٥٢ » ط دار الحلبي (1/ 359):
(ووقت الظهر من زواله) أي ميل ذكاء عن كبد السماء (إلى بلوغ الظل مثليه) وعنه مثله، وهو قولهما وزفر والأئمة الثلاثة. قال الإمام الطحاوي: وبه نأخذ. وفي غرر الأذكار: وهو المأخوذ به. وفي البرهان: وهو الأظهر. لبيان جبريل. وهو نص في الباب. وفي الفيض: وعليه عمل الناس اليوم وبه يفتى.
…………..
(قوله: وعليه عمل الناس اليوم) أي في كثير من البلاد، والأحسن ما في السراج عن شيخ الإسلام أن الاحتياط أن لا يؤخر الظهر إلى المثل، وأن لا يصلي العصر حتى يبلغ المثلين ليكون مؤديا للصلاتين في وقتهما بالإجماع، وانظر هل إذا لزم من تأخيره العصر إلى المثلين فوت الجماعة يكون الأولى التأخير أم لا، والظاهر الأول بل يلزم لمن اعتقد رجحان قول الإمام تأمل.
أحسن الفتاوى للمفتي رشيد أحمد صاحب ط أيج أيم سعيد (2/145)
جماعت عصر مثلین سے قبل ہو تو کیا کرے ؟:
سوال : حرمین شریفین میں نماز عصر کی جماعت مثلین سے قبل ہوتی ہے آیا سے قبل ہوتی ہے آیا جماعت ترک کر کے مثلین کے بعد نماز اکیلے پڑھی جائے یا جماعت کے ساتھ ؟ بینوا توجروا-
الجواب باسم ملهم الصواب: قال في الشامية وانظر هل اذا لزم من تأخيره العصر إلى المثلين فوت الجماعة يكون الأولى التأخير ام لا والظاهر الأول بل يلزم لمن اعتقد رجحان قول الامام، تأمل اس سے ثابت ہوا کہ مثلین کے بعد نماز عصر پڑھنا افضل ہے اگر چہ جماعت فوت ہو جائے۔ مگر حکم عام مقامات کے لئے ہے حرمین شریفین کی فضیلت کے پیش نظر وہاں جماعت ترک نہ کی جائے بلکہ مثل ثانی کے اندر جماعت کے ساتھ نماز پڑھی جائے فقط واللہ تعالی اعلم
فتاوى محمودية لمحمود حسن گنگوهی مع تعليق شيخ سليم الله خان ط دار الإفتاء جامعة فاروقية كراچي (5/338)
قول مختار اور مفتی بہ تو یہی ہے کہ وقت عصر مثلین سے شروع ہوتا ہے مگر دوسرا قول یہ بھی ہے کہ مثلِ واحد کے بعد ہی شروع ہو جاتا ہے اور اس وقت پڑھی ہوئی نماز کا اعادہ لازم نہیں ہوتا۔
فتاوى محمودية لمحمود حسن گنگوهی بترتيب جديد ط مكتبةمحمودية (9/51)
سوال : زید نے سایہ اصلی کے علاوہ ایک مثل ہونے پر عصر کی نماز پڑھی زید امام ابو حنیفہ رحمہ اللہ کا مقلد ہے، اس کی نماز ہو گئی یا اعادہ واجب ہے؟
الجواب: حنفیہ کو صاحبین کے قول کے موافق اس نماز کا اعادہ لازم نہیں، نماز صحیح ہوگئی ، امام طحطاوی رحمہ اللہ نے کہا ہے ۔ وبقولهما نأخذ.
فتاوى محمودية لمحمود حسن گنگوهی بترتيب جديد ط مكتبةمحمودية (9/53)
سوال: میں مقامی کالج میں ایم اے، اردو سال اول کا متعلم ہوں ، ہماری کلاس شام کے اوقات میں لگتی ہیں، کوئی نہ کوئی نماز بر وقت شروع ہو کر ختم ہو جاتی ہے، جبکہ ہم پڑھ رہے ہوتے ہیں، جواب طلب بات یہ ہیکہ آپ بتائیں کہ کیا میں اس نماز کو قبل از وقت پڑھ سکتا ہوں ، یا پھر قضاء پڑھوں؟ الجواب حامد أو مصلياً: پہلے پڑھنے کا کوئی حق نہیں ، الا یہ کہ اجازت ہو جیسے عصر کی نماز کہ عامہ سایہ دو مثل ہونے پر ادا کی جاتی ہے، مگر ایک مثل پر بھی گنجائش ہے، لہذا عصر کی نماز مثل واحد پر پڑھ سکتے ہیں، اس کی قضاء نہ کریں، لیکن مغرب کی نماز غروب سے پہلے نہیں ہو سکتی ، اسی طرح ظہر کی نماز زوال آفتاب سے پہلے نہیں ہوسکتی ، مثل واحد پر ظہر کا وقت ختم ہو جاتا ہے، مگر ایک قول میں مثلین تک گنجائش ہے ۔ فقط واللہ سبحانہ تعالیٰ اعلم
https://www.banuri.edu.pk/readquestion/%D8%B9%D8%B5%D8%B1-%D9%85%D8%AB%D9%84-%D8%A7%D9%88%D9%84-%D9%85%DB%8C%DA%BA-%D9%BE%DA%91%DA%BE%D9%86%D8%A7/12-12-2018
ظہر کے آخری وقت اور عصر کے ابتدائی وقت میں مفتیٰ بہ قول یہی ہے کہ ظہر کا وقت اس وقت ختم ہوتا ہے جب سایہ اصلی کے علاوہ ہر چیز کا سایہ دو مثل ہوجائے اور اس کے بعد عصر کا وقت داخل ہوتا ہے، لہٰذا مثلِ ثانی میں عصر کی نماز پڑھنا وقت سے پہلے نماز پڑھنا ہے، اس لیے یہ درست نہیں ہے۔
البتہ جہاں کہیں شرعی عذر ہو، وہاں شرعی مجبوری یا عذر کی بنا پر صاحبین کے مذہب( یعنی جب ہر چیز کا سایہ سوائے سایہ اصلی کے ایک مثل ہوجائے تو ظہر کا وقت ختم ہوجائے گا اور عصر کا وقت شروع ہوجائے گا) پر عمل کرنے بھی گنجائش ہے، اس لیے عذر کی بنا پر ان کے قول پر عمل کیا جاسکتا ہے، البتہ اس کی مستقل عادت بنانا چوں کہ امام صاحب کے مفتی بہ مذہب کو ترک کرنا ہے؛ اس لیے یہ درست نہیں ہے۔
صورتِ مسئولہ میں اگر کسی جگہ کوئی ایسی مسجد موجود ہو جہاں حنفی مذہب کے مطابق وقت داخل ہونے کے بعد عصر کی نماز ہوتی ہو تو وہیں جاکر نماز پڑھنا ضروری ہوگا، اسی طرح اگر وہاں حنفی متبعین اپنی جماعت خود کرا سکتے ہیں تب بھی مثلِ ثانی کے بعد ہی عصر کی نماز پڑھنا لازم ہوگا، اور اگر ایسی صورت نہیں، بلکہ اس ملک میں مثلِ اول کے بعد عصر کی نماز پڑھنے کا تعامل ہو اور دو مثل کے بعد نماز پڑھنے کی صورت میں مستقل طور پر جماعت کا ترک لازم آتا ہو، یعنی قریب میں کوئی اور مسجد نہ ہو جہاں عصر کی نماز مثلین کے بعد پڑھی جاتی ہو اور نہ ہی اپنی مرضی سے خود جماعت کرا سکتا ہو تو مثلِ ثانی میں عصر کی نماز کی گنجائش ہوگی۔