Important Topics

Who is responsible for paying the burial expenses?

Question: 

Assalamu alaikum,

Who is responsible for paying the burial expenses, which were invoiced by the burial society and initially paid by one of the brothers and subsequently forwarded to the executor?

Clarification:

The brother in reference is a shar’i heir.

Answer:

In the Name of Allah, the Most Gracious, the Most Merciful.

As-Salāmu ‘Alaykum Wa-Rahmatullāhi Wa-Barakātuh.

In principle, funeral and burial expenses (tajhīz wa takfīn) are among the primary obligations to be settled from the deceased’s estate before any distribution to the heirs. Therefore, in the case described, the executor (wasee) is obligated to reimburse the brother who covered these expenses from the estate funds.

And Allah Ta’ala Knows Best.

Baba Abu Bakr

Student Darul Iftaa
Accra, Ghana

Checked and Approved by,

Mufti Muhammad Zakariyya Desai.

الفَتَاوَى السَّراجِيَّةُ للشيخ الإمام العلامة الفقيه سراج الدين أبي محمد علي بن عثمان بن محمد الشيمي الأوشي الحنفي المتوفى سنة ٥٦٩هـ دار العلوم زكريا كتاب الجنازة(130)

الوارث لو كَفَّنَ الْمِيتَ بكَفَنِ الْمِثْلِ لا يكون متبرعاً، وله الرجوع، وكفن المثل ما يلبسه في الغالب، قاله الفقيه أبو جعفر الهندواني – رحمه الله تعالى ، وقال نصير بن يحيى – رحمه الله تعالى – : ما يلبسه إذا خرج للعيد. (۲) إذا كَفَنَ أجنبي ميتاً فَافْتَرَسَهُ الأَسد عاد الكفن إلى ملك الْمُكَفِّن لا إلى ملك الوارث.

 «فتح القدير للكمال بن الهمام – ط الحلبي» كمال الدين، محمد بن عبد الواحد السيواسي ثم السكندري، المعروف بابن الهمام الحنفي [ت 861 هـ الناشر: شركة مكتبة ومطبعة مصفى البابي الحلبي وأولاده بمصر ‌‌كتاب الصلاة باب الجنائز فصل في التكفين (2/ 113):

هو فرض على الكفاية، ولذا قدم على الدين، فإن كان الميت موسرا وجب في ماله، وإن لم يترك شيئا فالكفن على من تجب عليه نفقته إلا الزوج في قول محمد. وعند أبي يوسف يجب على الزوج ولو تركت مالا وعليه الفتوى، كذا في غير موضع. وإذا تعدد من وجبت النفقة عليه على ما يعرف في النفقات فالكفن عليهم على قدر ميراثهم كما كانت النفقة واجبة عليهم. ولو كان معتق شخص ولم يترك شيئا وترك خالة موسرة يؤمر معتقه بتكفينه؛ وقال محمد: على خالته، وإن لم يكن له من تجب عليه نفقته فكفنه في بيت المال، فإن لم يعط ظلما أو عجزا فعلى الناس، ويجب عليهم أن يسألوا له، بخلاف الحي إذا لم يجد ثوبا يصلي فيه لا يجب على الناس أن يسألوا له بل يسأل هو؛ فلو جمع رجل الدراهم لذلك ففضل شيء منها إن عرف صاحب الفضل رده عليه، وإن لم يعرف كفن محتاجا آخر به، فإن لم يقدر على صرفها إلى الكفن يتصدق بها. ولو مات في مكان ليس فيه إلا رجل واحد ليس له إلا ثوب واحد ولا شيء للميت؛ له أن يلبسه ولا يكفن به الميت، وإذا نبش الميت وهو طري كفن ثانيا من جميع المال، فإن كان قسم ماله فالكفن على الوارث دون الغرماء وأصحاب الوصايا، فإن لم يكن فضل عن الدين شيء من التركة، فإن لم يكن الغرماء قبضوا ديونهم بدئ بالكفن، وإن كانوا قبضوا لا يسترد منهم شيء وهو في بيت المال. ‌ولا ‌يخرج ‌الكفن ‌عن ‌ملك ‌المتبرع ‌به، فلذا لو كفن رجلا ثم رأى الكفن مع شخص كان له أن يأخذه، وكذا إذا افترس الميت سبع كان الكفن لمن كفنه لا للورثة»

 «الفتاوى العالمكيرية = الفتاوى الهندية» الكتاب: الفتاوى العالمكيرية المعروفة بالفتاوى الهندية لعلامة الهمام مولانا الشيخ نظام الدين وجماعة اهل العلم1086 ه: الناشر: المطبعة الكبرى الأميرية ببولاق مصر (وصَوّرتها دار الفكر بيروت وغيرها) كتاب الفرائض وفيه ثمانية عشر بابا الباب الثاني في ذوي الفروض (6/ 447):

«‌التركة ‌تتعلق ‌بها ‌حقوق ‌أربعة: ‌جهاز ‌الميت ‌ودفنه ‌والدين والوصية والميراث. فيبدأ أولا بجهازه وكفنه وما يحتاج إليه في دفنه بالمعروف، كذا في المحيط ويستثنى من ذلك حق تعلق بعين كالرهن والعبد الجاني فإن المرتهن وولي الجناية أولى به من تجهيزه،»

«الدر المختار شرح تنوير الأبصار وجامع البحار» محمد بن علي بن محمد بن علي بن عبد الرحمن الحنفي الحصكفي (ت 1088 هـ) الناشر: دار الكتب العلمية – بيروت ‌‌كتاب الوصايا ‌‌باب الوصي وهو الموصى إليه (ص749):

«وفي البزازية: إنما شرط الاشهاد لان قول الوصي في الانفاق يقبل لا في حق الرجوع بلا إشهاد انتهى، فليحفظ.

قلت: لكن في القنية والخلاصة والخانية: له أن يرجع بالثمن وإن لم يشهد، بخلاف الابوين، وسيجئ ما يفيده، فتنبه (أو قضى دين الميت) الثابت شرعا

(أو كفنه) أو أدى خراج اليتيم أو عشرة (من مال نفس أو اشترى الوارث الكبير طعاما أو كسوة للصغير) أو ‌كفن ‌الوارث ‌الميت أو قضى دينه (من مال نفسه) فإنه يرجع ولا يكون متطوعا.»

«حاشية ابن عابدين = رد المحتار ط الحلبي» محمد أمين، الشهير بابن عابدين [ت 1252 هـ] الناشر: شركة مكتبة ومطبعة مصطفى البابي الحلبي وأولاده بمص‌‌كتاب الصلاة ر ‌‌باب صلاة الجنازة (2/ 207):

«قوله: ‌ولا ‌يخرج ‌الكفن عن ملك المتبرع) حتى لو افترس الميت سبع كان للمتبرع لا للورثة نهر أي إن لم يكن وهبه لهم كما في الأحكام عن المحيط.»
«العقود الدرية في تنقيح الفتاوى الحامدية» ابن عابدين، محمد أمين بن عمر بن عبد العزيز عابدين الدمشقي الحنفي (ت 1252هـ) الناشر: دار المعرفة كتاب الوصايا باب الوصي (2/ 298):

«وفي العيون إذا ‌كفن ‌الوارث ‌الميت من مال نفسه يرجع، والأجنبي لا يرجع تتارخانية من مسائل متفرقة من الفرائض ولو كفن الميت غير الوارث من مال نفسه ليرجع في تركته بغير أمر الوارث فليس له الرجوع أشهد على الوارث أو لم يشهد.»

میت کمیٹی کی شرعی حیثیت[banuri town]

سوال

ہمارے ہاں ایک کمیٹی بنائی گئی ہے جس کا کام یہ ہے کہ جو لوگ اس کمیٹی میں ہیں، ان کے گھر اگر کوئی فوت ہو جائے تو  جنازے کے اخراجات ہیں کھانا کھلانا اور قبر کے جو کام ہیں اس میں یہ پیسے اسی پر لگاتے ہیں جو کمیٹی میں شامل ہو . اس کے بارے میں علمائےکرام کیا فرماتے ہیں، آیا یہ درست ہے؟

جواب

 میت کی تجہیز و تکفین کے لیے قائم کمیٹیوں کی شرعی حیثیت کی تفصیل درج ذیل ہے:

آج کل مختلف مقامات پر خاندان اور برادری میں میت کمیٹیاں بنانے کا رواج چل پڑا ہے، اس کمیٹی کا مقصد یہ ہوتا ہے کہ کمیٹی کے کسی ممبر کے گھر میں اگر خدانخواستہ موت کا سانحہ پیش آجائے تو اس کی تجہیزوتکفین کا خرچہ برداشت کیا جائے، نیز میت کے گھر والوں اور تعزیت کے لیے آئے مہمانوں کے لیے کھانے کا بندوبست کرنا بھی اسی کمیٹی کی ذمہ داری شمار ہوتی ہے، اس کمیٹی کا ممبر صرف ایک  خاندان یا برادری یا محلے کے لوگوں کو بنایا جاتا ہے، ممبر بننے کے لیے شرائط ہوتی ہیں، مثلاً یہ کہ ہر ماہ یا ہر سال ایک مخصوص مقدار میں رقم جمع کرانا لازم ہے، اگر یہ رقم جمع نہ کرائی جائے تو ممبر شپ ختم کردی جاتی ہے، جس کے بعد وہ شخص کمیٹی کی سہولیات سے فائدہ نہیں اُٹھا سکتا، عام طور پر یہ کمیٹیاں دو طرح کے اخراجات برداشت کرتی ہیں:

1:…کفن و دفن کے اخراجات، یعنی کفن، قبرستان تک لے جانے کے لیے گاڑی اور قبر وغیرہ کا خرچہ۔

2:…میت کے اہلِ خانہ اور مہمانوں کے کھانے کا خرچہ۔

شرعی نکتہ نگاہ سے ان دونوں طرح کے اخراجات میں حسبِ ذیل تفصیل ہے:

میت کی تجہیز و تکفین کا خرچہ

جب کسی شخص کا انتقال ہوجائے تو اس کی تجہیز و تکفین اور تدفین کے اخراجات کے بارے میں شرعی حکم یہ ہے کہ اگر میت کا ذاتی مال موجود ہوتو اس کے کفن دفن کا خرچہ اسی میں سے کیا جائے گا۔(۱) اگر اس کے ترکہ میں مال موجود نہیں تو اس کے یہ اخراجات اس شخص کے ذمہ ہوں گے جس پر اس کی زندگی میں مرحوم کا خرچہ واجب تھا، لہٰذا اگر میت کا باپ اور بیٹا دونوں زندہ ہوں تو کفن و دفن کے اخراجات بیٹے کے ذمہ ہوں گے، کیوں کہ جب کسی شخص کے پاس کوئی مال نہ ہواور اس کا باپ اور بیٹا دونوں موجود ہوں تواس کے اخراجاتِ زندگی بیٹے پر واجب ہوتے ہیں ،باپ پر نہیں،(۲) بیوی کا کفن دفن شوہر کے ذمہ لازم ہوتا ہے، اگرچہ اس کے پاس مال موجود ہو۔ (۳)

اگر میت کے پس ماندگان میں ایسا کوئی شخص نہ ہو جس پر اس کا خرچہ واجب ہوتا ہے یا ایسا کوئی فرد موجود ہو، لیکن وہ خود اتنا غریب ہو کہ یہ خرچہ برداشت نہیں کرسکے تو تکفین و تدفین کی ذمہ داری حکومتِ وقت کی ہے، لیکن اگر حکومتِ وقت یہ خرچہ نہیں اُٹھاتی یا ان کے نظم میں ایسی کوئی صورت نہ ہو تو جن مسلمانوں کو اس کی موت کا علم ہے، ان پر اس کی تکفین و تدفین کا خرچہ واجب ہے، اگر جاننے والے بھی سب غریب ہیں تو پھر وہ لوگوں سے چندہ کرکے یہ اخراجات برداشت کریں اور جو رقم باقی بچے وہ دینے والے کو واپس کریں، اگردینے والے کا علم نہ ہو تو اس رقم کو سنبھال کر رکھیں، اور اگر دوبارہ اس طرح کی صورتِ حال پیش آئے تو اس کی تکفین و تدفین میں اُسے خرچ کریں۔ (۴)

میت کے اہلِ خانہ کے لیے کھانے کا انتظام میت کے رشتہ داروں اور ہم سایوں کے لیے مستحب ہے کہ وہ میت کے اہلِ خانہ کے لیے ایک دن اور رات کے کھانے کا انتظام کریں، کیوں کہ میت کے اہلِ خانہ غم سے نڈھال ہونے اور تجہیز و تکفین میں مصروف ہونے کی وجہ سے کھانا پکانے کا انتظام نہیں کرپاتے،(۵) غزوۂ موتہ میں جب نبی کریم   کے چچا زاد بھائی حضرت جعفربن ابی طالب رضی اللہ عنہ شہید ہوئے اور ان کی وفات کی خبر آپ   تک پہنچی تو آپ   نے صحابہ کرام رضی اللہ عنہم سے فرمایا کہ جعفر کے گھر والوں کے لیے کھانے کا بندوبست کرو ،کیوں کہ ان پرایسا شدید صدمہ آن پڑا ہے جس نے انہیں(دیگر اُمور سے )مشغول کردیا ہے۔ (۶)

میت کے اہل خانہ کے علاوہ جو افراد دور دراز علاقوں سے میت کے اہلِ خانہ سے تعزیت اور تکفین و تدفین میں شرکت کے لیے آئے ہوں اگر وہ بھی کھانے میں شریک ہوجائیں تو ان کا شریک ہونا  بھی درست ہے، تاہم تعزیت کے لیے قرب و جوار سے آئے لوگوں کے لیے میت کے ہاں باقاعدہ کھانے کا انتظام کرناخلافِ سنت عمل ہے۔(۷)

مروجہ انجمنوں اور کمیٹیوں کے بظاہر نیک اور ہم دردانہ مقاصد سے ہٹ کر کئی شرعی قباحتیں ہیں:

1:… کمیٹی کا ممبر بننے کے لیے ضروری ہے کہ ہر فرد، چاہے امیر ہو یا غریب، ہر ماہ ایک مخصوص رقم کمیٹی میں جمع کرے،اگر وہ یہ رقم جمع نہیں کراتا تو اُسے کمیٹی سے خارج کردیا جاتا ہے، پھر کمیٹی اس کو وہ سہولیات فراہم نہیں کرتی جو ماہانہ چندہ دینے والے ممبران کو مہیا کرتی ہے، اس سے معلوم ہوتا ہے کہ اس کمیٹی کی بنیاد ’’امدادِ باہمی‘‘ پر نہیں، بلکہ اس کا مقصد ہرممبر کو اس کی جمع کردہ رقم کے بدلے سہولیات  فراہم کرنا ہے، یہ سہولیات اس کی جمع کردہ رقم کی نسبت سے کبھی کم اور کبھی زیادہ ہوسکتی ہیں، یہ معاملہ واضح طور پر قمار (جوا)کے مشابہ ہونے کی وجہ سے ناجائز ہے۔ (۸)

2:…کمیٹی کے ممبران میں سے بعض اوقات غریب و نادارلوگ بھی ہوتے ہیں، جو اتنی وسعت واستطاعت نہیں رکھتے کہ ماہانہ سو روپے بھی ادا کرسکیں، لیکن خاندانی یا معاشرتی رواداری کی خاطر یا لوگوں کی باتوں سے بچنے کے لیے وہ مجبوراً یہ رقم جمع کراتے ہیں، یوں وہ رقم تو جمع کرادیتے ہیں، لیکن اس میں خوش دلی کا عنصر مفقود ہوتا ہے، جس کی وجہ سے وہ مال استعمال کرنے والے کے لیے حلال طیب نہیں ہوتا، کیوں کہ حدیث شریف میں ہے کہ کسی مسلمان کا مال دوسرے مسلمان کے لیے صرف اس کی دلی خوشی اور رضامندی کی صورت میں حلال ہے۔(۹)

3:… بسااوقات اس طریقہ کار میں ضرورت مند اور تنگ دست سے ہم دردی اور احسان کی بجائے اس کی دل شکنی کی جاتی ہے اور اس کے ساتھ بدسلوکی کا رویہ برتا جاتا ہے، کیوں کہ خاندان کے جو غریب افراد کمیٹی کی ماہانہ یا سالانہ فیس نہیں بھر پاتے انہیں کمیٹی سے خارج کردیا جاتا ہے، اس طرح ان کی حاجت اور ضرورت کے باوجود اُنہیں اس نظم کا حصہ نہیں بنایا جاتا اور پھر موت کے غمگین موقع پر اُسے طرح طرح کی باتوں اور رویوں کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔

4:… اس طریقہ کار میں کھانا کھلانا ایک عمومی دعوت کی شکل اختیار کرجاتا ہے، حال آں کہ مستحب یہ ہے کہ یہ انتظام صرف میت کے گھر والوں کے لیے ہو۔(۱۰)

خلاصہ کلام یہ ہے کہ اگر کسی کے ہاں میت ہوجائے تو مستحب یہ ہے کہ میت کے عزیز و اقارب و پڑوسی مل کر میت کے اہلِ خانہ کے لیے کھانے کا انتظام کریں، میت کی تجہیزو تکفین کے خرچہ کے لیے دیکھا جائے کہ اگر میت نے کچھ مال چھوڑا ہے توتجہیز و تکفین کا خرچہ اس کے مال میں سے کیا جائے اور اگر میت نے کسی قسم کا مال نہیں چھوڑا توجس شخص پر اس کا خرچہ واجب ہے، وہ یہ اخراجات برداشت کرے، اگر وہ نہیں کرپاتا تو خاندان کے مخیر حضرات کو چاہیے کہ وہ یہ اخراجات اپنے ذمے لے لیں، مروجہ کمیٹیوں کے قیام میں شرعاً کئی قباحتیں ہیں، اس سے اجتناب کیا جائے۔ البتہ اگرمندرجہ بالا قباحتوں سے اجتناب کرتے ہوئے رفاہی انجمن یا کمیٹی قائم کی جائے جس میں مخیر حضرات ازخود چندہ دیں، کسی فردکوچندہ دینے پر مجبور نہ کیا جائے تو اس کی گنجائش ہے، یہ انجمن یا کمیٹی خاندان کے لوگوں کی ضروریات کی کفالت کرے، بے روزگار افراد کے لیے روزگار ، غریب و نادار بچیوں کی شادی اور دیگر ضروریات میں ضرورت مندوں کی مدد کرے، ان امور کی انجام دہی کے ساتھ ساتھ اگریہ کمیٹی یا انجمن خاندان کے کسی فرد کی موت کے بعد اس کی تجہیز و تکفین پر آنے والے اخراجات بھی اپنے ذمہ لے تو یہ درست ہے۔ فقط واللہ اعلم

 

 

Related Articles

Back to top button