General Rules of SalahQira’atSALAH

Reading Qiraat Sab’a in Fardh Salah

Question:

What is the Shar’i ruling regarding the reading Qirat-e-Saba’ in Fardh Salah?

Answer:

In the Name of Allah, the Most Gracious, the Most Merciful.

As-Salāmu ‘Alaykum Wa-Rahmatullāhi Wa-Barakātuh.

It is permissible for someone who is well versed in the different modes of Qira’at(having ijazah from a qualified Qari) to read Qira’at Sab’a in Fardh Salah.

However, in places where people are completely unaware of the various modes of Qira’at, one should refrain from reading the mode/s that is/are unfamiliar to such places so as not to put their Deen to test, as they may utter inappropriate words concerning these Qira’at despite the fact that all of them are authentic.

And Allah Ta’ala Knows Best.

Muhammud Luqman Moideen

Student Darul Iftaa
Mauritius

Checked and Approved by,
Mufti Muhammad Zakariyya Desai.

[1] الوافي في كيفية ترتيل القرآن الكريم (ص: 163)

س 96 ما هي الطريقة الصحيحة في تعلم القرآن؟ وما هي طرق الأخذ عن الشيوخ وعلماء هذا الفن؟

ج: لا شك أن أصح الطرق في تعلم القرآن هي تعلم أحكام التجويد، وهي التي فصّلها أصحاب الفضيلة العلماء، والواجب على المتلقي معرفة هذه القواعد جيدا وإتقانها، وذلك يتطلب تطبيقات عملية لهذه الأحكام، ولا تصح طريقة أخذها من مصحف أو شريط أو كتاب تجويد بمعزل عن شيخ محقق متقن يلقّن المتلقي حكما حكما، وهذا ما أوصى به كل علماء هذا الفن.

وطرق الأخذ عن أهل هذا الفن تكون بالجلوس بين يدي متقن – كما قلنا – ثم سماع قراءته ثم القراءة عليه، ليسمع ثم يصحح الأحكام، حتى إذا أتقن المتلقي حكما أجازه المعلم ثم ينتقل إلى حكم آخر، وهكذا حتى يصل به معلمه إلى باقي الأحكام كما أنزلت من السماء. والله أعلم.

[2] الفتاوى التاتارخانية ج ٢ ص ٧٢

۱۷۸۳ : – فتاوى الحجة وقراءة القرآن بالقراءات السبع والروايات كلها جائزة، ولكنى أرى الصواب أن لا يقرأ بالقراءة العجيبة بالإمالات وبالروايات

الغريبة؛ لأن بعض الناس يتعجبون، وبعضهم يتفكرون، وبعضهم يخطئون، وبعض السفهاء يقولون مالا يعلمون، ولعلهم لا يرغبون فيقعون في الإثم والشقاء، ولا ينبغي للأئمة أن يحملوا العوام إلى ما فيه نقصان دينهم ودنياهم، و حرمان ثوابهم في عقابهم، م: لا يقرأ على رأس العوام والجهال وأهل القرى والجبال مثل قراءة أبـي جـعـفـر الـمـدنى وابن عامر وعلى بن حمزة الكسائي، صيانة لدينهم، فلعلهم يستخفون أو يضحكون، وإن كان كل القراءات والروايات صحيحة فصيحة طيبة، و مشائخنا اختاروا قراءة أبى عمر حفص عن عاصم.

الدر المختار شرح تنوير الأبصار وجامع البحار (ص74):

ويجوز ‌بالروايات السبع، لكن الاولى أن لا يقرأ بالغريبة عند العوام صيانة لدينهم

حاشية ابن عابدين = رد المحتار ط الحلبي (1/ 541):

(قوله ويجوز ‌بالروايات ‌السبع) بل يجوز بالعشر أيضا كما نص عليه أهل الأصول ط (قوله بالغريبة) أي بالروايات الغريبة والإمالات لأن بعض السفهاء يقولون ما لا يعلمون فيقعون في الإثم والشقاء، ولا ينبغي للأئمة أن يحملوا العوام على ما فيه نقصان دينهم، ولا يقرأ عنده قراءة أبي جعفر وابن عامر وعلي بن حمزة والكسائي صيانة لدينهم فلعلهم يستخفون أو يضحكون وإن كان كل القراءات والروايات صحيحة فصيحة، ومشايخنا اختاروا قراءة أبي عمرو وحفص عن عاصم اهـ من التتارخانية عن فتاوى الحجة

محمود الفتاوى ج ١ ص ٤٢٤

نماز میں قراءة سبعہ پڑھنا کیسا ہے؟

سوال: نماز میں قرآت سبعہ کا پڑھنا اس شخص کے لیے جو اس کا جاننے والا ہو؟

الجواب حامداً ومصلياً ومسلماً:

اس صورت میں بھی نماز صحیح اور درست ہے۔ فقط واللہ تعالیٰ اعلم ۔

املاه: العبد احمد خانپوری،يکم صفر المظفر ۱۴۲۵ھ

امداد الفتاوى ج ٢ ص ٥٧

عوام کے فتنہ میں مبتلا ہونے کے خطرہ کے وقت قراءت سبعہ میں غلو کی ممانعت

– سوال (۲۴۲) قدیم ۲۹۵/۱ بعض مقامات میں سبعہ قراءت کا چرچا حد سے تجاوز کر چکا ہے، بعض حفاظ لڑکوں اور جاہلوں کو مختلف روایتیں یاد کرا کے پڑھاتے اور پڑھواتے ہیں اور اس کو صریحاً بغرض رہا پڑھتے پڑھاتے ہیں، تروایح میں بھی ایسا ہوتا ہے، جس سے سوانمود کے کوئی نفع نہیں ۔ کیا اس طرح پڑھنے پڑھانے میں اس زمانہ پر آشوب میں یہ خوف نہیں ہے کہ جہاں و مخالفین اسلام ان اختلافات کو سنکر مشوش ہوں گے اور خوف فتنہ نہیں ہے؟ چنانچہ بعض حفاظ نے تو یہ کہا ہے کہ ایک رکعت میں روایت حفص پڑھی ، دوسری رکعت میں روایت قالون ۔ کسی نے ٹو کا تو کہہ دیا کہ تم نہیں جانتے ایسی صورتیں اچھی نہیں معلوم ہوتیں، کیا یہ فعل قابل روکنے کے نہیں ہے؟ براہ نوازش اگر قابل ممانعت ہے تو اس کا جواب ذرا تفصیل سے الامداد میں طبع ہو جاوے تو بہتر ہے۔ میرا یہ خیال ہر گز نہیں کہ اس کی تعلیم بند ہو بلکہ زور دیا جاوے کہ تجوید کا نام قراءت ہے اور عوام کو اسی کی ضرورت ہے، اگر کوئی لکھا پڑھا آدمی حرف بھی اس کا اچھا ہو تو اس کو سیع پڑھائی جاوے۔ سفہاء اور تنگ خیال لوگوں کو فقط تجوید پڑھائی جاوے اور قراءت جاننے والوں کو چاہئے کہ ہر کس و ناکس کو سوائے روایت حفص اور تجوید کے کچھ نہ پڑھایا کریں۔

الجواب : قال الله تعالى: ولا تسبوا الذين يدعون من دون الله فيسبوا الله عدوا بغير علم (1) – في تفسير بيان القرآن.

اس سے قاعدہ شرعیہ ثابت ہوا کہ مباح ( بلکہ مستحب بھی ۲ امنہ ) جب حرام کا سبب بن جائے وہ جائے وہ حرام ہو جاتا ہے الخ۔ (وهذا المبحث كله صالح لأن يلاحظ فيه (١٢)

وروى البخاري عن على قال : حدثوا الناس بما يعرفون أتحبون أن يكذب الله ورسوله (۲) – في حقيقة الطريقة.

بعضے بیباک عوام کے سامنے بے تکلف دقائق بیان کر بیٹھتے ہیں، بعضے عوام ان کی تکذیب کرتے ہیں اور بعضے تو اعد مشہورہ شرعیہ کے منکر ہو جاتے ہیں، سو ہر حال میں اللہ ورسول کی تکذیب کا تحقق ہوا۔ والثاني أشد من الأول. اس حدیث میں اس عادت کی ممانعت ہے۔

وروى مسلم عن ابن مسعود أنه قال : ما أنت بمحدث قوما حديثا لا يبلغه عقولهم إلا كان لبعضهم فتنة (۳) – في حقيقة الطريقة.

اس حدیث سے بھی وہی مضمون ثابت ہوتا ہے جو اس کے قبل کی حدیث سے ثابت ہوتا ہے۔

ص : ۸۲ وفي رد المحتار تحت مسئلة كراهة تعيين السورة في الصلوة من الدر المختار : ما نصه حاصل كلام هذين الشيخين بيان وجه الكراهة في المداومة، وهو أنه إن رأى ذلك حتما يكره من حيث تغيير المشروع، وإلا يكره من حيث إيهام الجاهل. ج ۱، ص: ۵۶۸ (۴)۔

احسن الفتاوى ج ٣ ص ٧٢

عوام میں غیر معروف طریقہ سے تلاوت جائز نہیں :

سوال : کیا فرماتے ہیں علماء دین اس مسئلہ میں کہ ایک بستی میں ان پڑھوں کی اکثریت ہے اور ان پڑھوں کے سامنے جس طرح قرآن پاک تحریر ہے عین اسی طرح پڑھے تو صحیح سمجھتے ہیں ۔ اگر روایت کے ساتھ مثلاً قل هو الله احد كو احدن الله الصمد پڑھے تو امام صاحب پر وہ مقتدی اعتراض کرتے ہیں، اس صورت میں امام صاحب کو کیا کرنا چاہتے ، آیا الله الصمد جیسا کہ معروف ہے اسی طرح پڑھے یا کہ غیر معروف ن الله الصمد پڑھے ؟ بینوا توجروا

الجواب باسم ملهم الصواب.

عوام میں غیر معروف طریقہ سے قرآن کریم پڑھنے میں انتشار اور بدگمانی پیدا ہوتی ہے اس لئے جائز نہیں، فقط واللہ تعالیٰ اعلم

 

Related Articles

Back to top button