Miscellaneous in ZakatUmrahZAKAT
Trending

Using Zakāh funds to send someone for ‘Umrah

Question:

Can one use zakaat funds to send someone who is eligible to receive zakaat for umrah?

Answer:

In the Name of Allah, the Most Gracious, the Most Merciful.

As-Salāmu ‘Alaykum Wa-Rahmatullāhi Wa-Barakātuh.

One of the conditions for the fulfillment of Zakāh is Tamlīk (full transferal of ownership), meaning the recipient must be given full autonomy with regard to how the funds will be spent. It cannot merely be Ibāhah (permission to use the funds for a specific purpose without the actual transfer of ownership).

Accordingly, if one pays their Zakāh to a Zakāh eligible recipient (making them the owner of it), and thereafter advises them to use it for ‘Umrah, then it will be permissible.[1] However, one cannot force them to use it for ‘Umrah nor will they be obliged to do so, as that is contrary to the transferal of ownership.

It should also be kept in mind that it is Makrūh (disliked) to give a full Nisāb amount as Zakāh to a single person as it will make them Sāhib al-Nisāb (ineligible to receive Zakāh), unless it is known that they are in debt or will be using the money to fulfill their basic needs and the needs of their family, as in that case, they would still be considered Faqīr (eligible to receive Zakāh).

Moreover, if one decides to pay their Zakāh in installments, it will only be permissible until the recipient becomes Sāhib al-Nisāb. Once the recipient reaches that threshold, it will no longer be permissible to give them Zakāh.[2]

Alternatively, one may request permission from one who is Zakāh eligible to use Zakāh funds on their behalf in purchasing all of the necessities of ‘Umrah for them. In this manner, the Zakāh will be fulfilled and the Zakāh payer can ensure that the funds are being used towards ‘Umrah.[3]

And Allah Ta’ala Knows Best.

 Adil Sadique

Student – Darul Iftaa
New York, USA

Checked and Approved by,
Mufti Muhammad Zakariyya Desai.

[1] «بدائع الصنائع في ترتيب الشرائع للكاساني (ت 587ه)، دار الكتب العلمية» (2/ 39)

«وأما ركن الزكاة فركن الزكاة هو إخراج جزء من النصاب إلى الله تعالى، وتسليم ذلك إليه يقطع المالك يده عنه بتمليكه من الفقير وتسليمه إليه… وكذلك إذا اشترى بالزكاة طعاما فأطعم الفقراء غداء وعشاء ولم يدفع عين الطعام إليهم لا يجوز لعدم التمليك. وكذا لو قضى دين ميت فقير بنية الزكاة؛ لأنه لم يوجد التمليك من الفقير لعدم قبضه»

 

«تبيين الحقائق شرح كنز الدقائق للزيلعي (ت 743ه) وحاشية الشلبي، المطبعة الكبرى الأميرية» (1/ -252251):

«الزكاة يجب فيها تمليك المال؛ لأن الإيتاء في قوله تعالى {وآتوا الزكاة} [البقرة: 43] يقتضي التمليك، ولا تتأدى بالإباحة حتى لو كفل يتيما فأنفق عليه ناويا للزكاة لا يجزيه بخلاف الكفارة، ولو كساه تجزيه لوجود التمليك»

 

«حاشية ابن عابدين (ت 1252ه) = رد المحتار ط الحلبي» (2/ 256):

«(هي) لغة الطهارة والنماء، وشرعا (تمليك) خرج الإباحة، فلو أطعم يتيما ناويا الزكاة لا يجزيه إلا إذا دفع إليه المطعوم

—-

(قوله: خرج الإباحة) فلا تكفي فيها…(قوله: إلا إذا دفع إليه المطعوم) لأنه بالدفع إليه بنية الزكاة يملكه فيصير آكلا من ملكه، بخلاف ما إذا أطعمه معه، ولا يخفى أنه يشترط كونه فقيرا»

 

فتاوى دار العلوم ديوبند، دار الاشاعت (6/ 273-272):

سوال: زکوۃ کے روپے سے لوگوں کو حج کرانا کیسا ہے۔

الجواب:- اگر حج کرنے والے کی وہ روپیہ ملک کر دیا جائے کہ وہ اپنا حج کرے یا جس خرچ میں چاہے لاوے تو یہ درست ہے اور زکوۃ ادا ہو جاتی ہے۔

 

فتاوى قاسمية، اشرفى بک ڈپو (10/ 529):

سوال [٤۲۷٦]: کیا فرماتے ہیں علماء کرام مسئلہ ذیل کے بارے میں: کہ کیا میں کسی غریب کو زکوۃ کی رقم دیکر حج کی ترغیب دلا سکتا ہوں کہ تم چاہو تو اس رقم سے حج کر سکتے ہو تم اسکے مالک ہو؟

الجواب وبالله التوفيق: جی ہاں اور خیر کی ترغیب دینے میں الگ سے ثواب بھی ملے گا۔ لیکن مقدار نصاب سے زائد دینے کی کراہت بھی لازم آئے گی۔

 

[2] الأصل للشيباني (ت 189ه) ط قطر» (2/ 125):

«قلت: وهل يعطي الرجل من زكاته رجلا واحدا مائتي درهم وليس له عيال؟ قال: أكره له ذلك. قلت: فإن أعطاه مائتي درهم وهو محتاج أيجزيه ذلك من زكاته؟ قال: نعم، يجزيه، وأكره له أن يبلغ به مائتين إذا لم يكن له عيال أو لم يكن عليه دين»

 

«بدائع الصنائع في ترتيب الشرائع للكاساني (ت 587ه)، دار الكتب العلمية» (2/ -4948):

«ويكره لمن عليه الزكاة أن يعطي فقيرا مائتي درهم أو أكثر ولو أعطى جاز وسقط عنه الزكاة في قول أصحابنا الثلاثة، وعند زفر لا يجوز ولا يسقط. وجه قوله أن هذا نصاب كامل فيصير غنيا بهذا المال ولا يجوز الصرف إلى الغني. ولنا أنه إنما يصير غنيا بعد ثبوت الملك له فأما قبله فقد كان فقيرا فالصدقة لاقت كف الفقير فجازت وهذا؛ لأن الغنى يثبت بالملك، والقبض شرط ثبوت الملك فيقبض ثم يملك المقبوض ثم يصير غنيا ألا ترى أنه يكره؛ لأن المنتفع به يصير هو الغنيهذا إذا أعطي مائتي درهم وليس عليه دين ولا له عيال فإن كان عليه دين فلا بأس بأن يتصدق عليه قدر دينه وزيادة ما دون المائتين وكذا إذا كان له عيال يحتاج إلى نفقتهم وكسوتهم.»

 

المحيط البرهاني لابن مازة البخاري (ت 616ه)، إدارة القرآن (3/ -220219):

2806- قال محمد رحمه الله تعالى في “الأصل”: إذا أعطى زكاة ماله مائتي درهم أو ألف درهم إلى فقير واحد، فإن كان عليه دين مقدار ما أعطى إليه، أو كان صاحب عيال يحتاج إليه للإنفاق عليهم، فإنه يجوز ولا يكره، وإن لم يكن عليه دين، ولا صاحب عيال، فإنه يجوز عند أصحابنا الثلاثة، ويكره…ولعلمائنا الثلاثة رحمهم الله تعالى على ما ذكر في الأصل، أن الأداء يلاقي كف الفقير من كل وجه، وإنما ثبت الغناء بعد ذلك حكماً للأداء؛ لا أن الأداء يلاقي كف الغني من وجه، وكف الفقير من وجه، بيانه أن للغنى حكم الملك، والملك إنما يثبت للغني بعد التمليك، فكان الغناء متأخراً عن التمليك، فلا يصلح مانعاً عن التمليك؛ لأن المانع من الشيء يكون سابقا، ولا يكون متأخراً عنه، إلا أنه يكره؛ لأن الغنى إنما يصلح بالدفع، ولو قارنه منع الجواز، فإذا اتصل به وقرب منه وجب الكراهة.

 

«حاشية ابن عابدين (ت 1252ه) = رد المحتار ط الحلبي» (2/ 353):

«(وكره إعطاء فقير نصابا) أو أكثر (إلا إذا كان) المدفوع إليه (مديونا أو) كان (صاحب عيال) بحيث (لو فرقه عليهم لا يخص كلا) أو لا يفضل بعد دينه (نصاب) فلا يكره فتح

—-

(قوله: وكره إعطاء فقير نصابا أو أكثر)… قال في النهر: والظاهر أنه لا فرق بين كون النصاب ناميا أو لا حتى لو أعطاه عروضا تبلغ نصابا فكذلك ولا بين كونه من النقود أو من الحيوانات حتى لو أعطاه خمسا من الإبل لم تبلغ قيمتها نصابا كره لما مر اهـ»

 

فتاوى محموديہ، مکتبہ محمودیہ (14/ 249-248):

سوال:- ایک مستحق زکوۃ کو بیک وقت زکوۃ فدیہ روزہ ونماز میں سترہ اٹھارہ ہزار کی رقم يا اسی قیمت کا کوئی مکان دیا جا سکتا ہے یا نہیں؟

الجواب حامدا ومصليا: زکوۃ اتنی مقدار میں کسی کو دینا جس سے وہ صاحب نصاب ہو جاۓ مکروہ ہے، پس اگر اس شخص کے ذمہ سترہ اٹھارہ ہزار قرضہ ہے یا اتنا قرضہ ہے کہ یہ رقم بمد زکوۃ اس کو دیدی جاۓ اور وہ اس سے اپنا قرضہ ادا کردے تو مقدار نصاب نہ بچے گا، تو یہ دینا بلا کراہت درست ہوگا، اسی طرح اگر وہ شخص عیال دار ہے بے گھر ہے، اگر اس روپے سے گھر خرید کر اس کی ملک میں دیدیا جاۓ جس سے وہ صاحب نصاب نہ ہو جاۓ، جب بھی مکروہ نہ ہوگا، بلکہ بہتر ہوگا۔

 

فتاوى رحيميہ، دار الاشاعت (7/ 175):

(سوال ۱۹۴) ایک ہی شخص کو اتنی زکوۃ دی جائے کہ وہ مالک نصاب بن جاۓ تو وہ درست ہے؟

(الـجـواب) ایک ہی آدمی کو اس قدر زکوۃ دینا کہ وہ صاحب نصاب بن جاۓ مکروہ ہے۔ ہاں مقروض کو اس کے قرض کی برابر یا اس سے بھی زائد رقم دے سکتے ہیں اس میں کوئی کراہت نہیں ہے مگر یہ زائد رقم ایک نصاب کی برابر نہ ہو۔ اسی طرح عیالدار کو اتنی رقم دے سکتے ہیں کہ اگر اولاد پر تقسیم کی جائے تو ہر ایک بچہ بچی صاحب نصاب نہ بن سکے اتنی رقم دینا بلا کراہت درست ہے۔ ہاں جب ایک بار نصاب کی برابر رقم دی گئی اور وہ صاحب نصاب بن گیا تو اب دوبارہ دوسری زکوۃ کی رقم اس کو نہیں دی جاسکتی۔

 

[3] «بدائع الصنائع في ترتيب الشرائع للكاساني (ت 587ه)، دار الكتب العلمية» (2/ 39):

«ولو قضى دين حي فقير إن قضى بغير أمره لم يجز؛ لأنه لم يوجد التمليك من الفقير لعدم قبضه وإن كان بأمره يجوز عن الزكاة لوجود التمليك من الفقير؛ لأنه لما أمره به صار وكيلا عنه في القبض فصار كأن الفقير قبض الصدقة بنفسه وملكه من الغريم»

 

«الفتاوى العالمكيرية = الفتاوى الهندية، المطبعة الكبرى الأميرية» (1/ 190):

«‌ولو ‌قضى ‌دين ‌الفقير بزكاة ماله إن كان بأمره يجوز، وإن كان بغير أمره لا يجوز وسقط الدين»

 

آپ کے مسائل اور ان کا حل (3/ 382):

س…..زکوۃ کی امداد کی تقسیم کے بارے میں ایک نظریہ یہ سامنے آیا ہے کہ یہ رقم مستحقین کو دینے کے بجاۓ اس سے مستحقین کے حق میں کسی ذمہ دار فرد کی نگرانی میں صنعتی نوعیت کا کوئی کاروبار کر دیا جاۓ تاکہ اس سے منافع حاصل ہو اور غربا کو روز گار بھی فراہم کر کے مستحقین کو جلد یا بدیر انہیں صاحب نصاب لوگوں کے برابر لاکھڑا کیا جاۓ۔ جبکہ میں نے ایک دینی اور دنیوی دونوں علوم میں کافی دسترس رکھنے والے گوشہ نشین بزرگ سے یہ سنا ہے کہ زکوۃ کی رقم مخیر افراد سے مستحقین کو براہ راست ملنی چاہئے کسی تیسرے فرد کو ان دونوں کے درمیان نہ تو حائل ہونے کی اجازت ہے اور نہ اس رقم کو مستحق آدمی کے پاس پہنچنے سے پہلے اس سے کسی قسم کا فائدہ حاصل کرنے کی کوشش کرنے کا اختیار ہے خواہ وہ مستحقین کے حق میں ہی کیوں نہ ہو۔ ان دونوں نظریوں کے صحیح یا غلط ہونے کے بارے میں ضروری وضاحت فرمائیں۔

ج…..اس بزرگ کی یہ بات صحیح ہے کہ زکوۃ کی رقم کا جب تک کسی فقیر محتاج کو مالک نہیں بنا دیا جاۓ گا زکوۃ ادا نہیں ہوگی ان کو اس رقم کا مالک بنا دینے کے بعد اگر ان کی اجازت و توکیل سے ایسا کوئی انتظام کیا جاۓ جو آپ نے لکھا ہے تو درست ہے۔

 

فتاوى دار العلوم زكريا (3/ 189-188، 211):

مدیون کی طرف سے مالدار وکیل بالقبض بن جائے، پھر دائن کو اس کی طرف سے قرضہ ادا کر دے تو مالدار کی زکوۃ اور فقیر کا قرضہ دونوں کی ادائیگی درست ہو جائیگی۔…لیکن اس پر اشکال ہوتا ہے کہ قبضہ تو غیر کا ہونا چاہئے اور یہاں (معطی) دینے والا اور (آخذ) لینے والا ایک ہو گئے یہ کیسے صحیح ہوگا؟ اس کا جواب یہ ہے کہ در حقیقت یہاں غیر ہی کا قبضہ ہے کہ جب مالدار نے مقروض سے اجازت حاصل کر لی تو مالدار مقروض کی طرف سے وکیل بالقبض بن گیا اور وکیل کا قبضہ موکل کا قبضہ ہے جو غیر کا قبضہ ہے۔ اور یہ بات بدائع کی عبارت میں واضح ہے۔

 

سوال: اگر کوئی شخص کثرت قرض کی وجہ سے زکوۃ کا مستحق ہے، اور اگر اس کو زکوۃ دی جاۓ تو ضائع شخص کر دے گا لہذا یہ شخص کسی کو وکیل بنا سکتا ہے تاکہ اس کی طرف سے قرض ادا کردے؟

الجواب: صورت مسئولہ میں فقیر اگر اپنا وکیل مقرر کرے اور وکیل زکوۃ کی رقم لیکر فقیر کی طرف سے قرضہ ادا کر دے تو یہ جائز ہے اور زکوۃ ادا ہو جاۓ گی۔ اور اگر کسی کو وکیل نہیں بنایا صرف اجازت دی تو پھر بھی زکوۃ ادا ہو جائیگی، گویا دائن نے فقیر کے لیے قبضہ کر کے اپنی جیب میں رقم ڈالدی۔

Related Articles

Back to top button