Recipients of ZakatZAKAT

Giving Zakat to a family member with financial problems

Question:

My sister in law is in a business problem she is not able to let property as the previous tenant has left outrageous amount of power bill… she has no other means of paying that bill.. she’s just about managing to support her kids. She does possess gold jewellery. Can she receive zakat?

Answer:

In the Name of Allah, the Most Gracious, the Most Merciful.

As-Salāmu ‘Alaykum Wa-Rahmatullāhi Wa-Barakātuh.

In principle, one may receive Zakat when all his/her assets are below Nisab (Shari Threshold: amount equivalent to 612.35 grams of silver or 87.48 grams of gold).

The simple formula is:

Assets – Debts/Liabilities =

  • If the total is equal or more than Nisab: cannot receive Zakat.
  • If the total is less then Nisab, then one may receive Zakat.

[1]

And Allah Ta’ala Knows Best.

Shahid Shaikh

Student Darul Iftaa
New Jersey, U.S.A.

Checked and Approved by,
Mufti Muhammad Zakariyya Desai.

[1]

مختصر القدوري (ص: 60)

ولا يجوز دفع الزكاة إلى من يملك نصابا من أي مال كان ويجوز دفعها إلى من يملك أقل من ذلك وإن كان صحيحا مكتسبا

الهداية في شرح بداية المبتدي (1/ 112)

 ويجوز دفعها إلى من يملك أقل من ذلك وإن كان صحيحا مكتسبا ” لأنه فقير والفقراء هم المصارف ولأن حقيقة الحاجة لا يوقف عليها فأدير الحكم على دليلها وهو فقد النصاب ” ويكره أن يدفع إلى واحد مائتي درهم فصاعدا وإن دفع جاز ” وقال زفر رحمه الله لا يجوز لأن الغني قارن الأداء فحصل الأداء إلى الغني ولنا أن الغني حكم الأداء فيتعقبه لكنه يكره لقرب الغني منه كمن صلى وبقربه نجاسة قال ” وأن يغنى بها إنسانا أحب إلي ” معناه الإغناء عن السؤال يومه ذلك لأن الإغناء مطلقا مكروه.

الاختيار لتعليل المختار (1/ 122)

[الاختيار لتعليل المختار]

قال: (ويجوز دفعها إلى من يملك دون النصاب وإن كان صحيحا مكتسبا) لأنه فقير.

واعلم أن الغني على مراتب ثلاثة: غني يحرم عليه السؤال، ويحل له أخذ الزكاة، وهو أن يملك قوت يومه وستر عورته ; وكذلك الحكم فيمن كان صحيحا مكتسبا، لقوله – عليه الصلاة والسلام -: «من سأل عن ظهر غنى فإنه يستكثر من جمر جهنم “، قيل: يا رسول الله، وما ظهر غنى؟ قال: (أن يعلم أن عند أهله ما يغديهم ويعشيهم» وغني يحرم عليه السؤال والأخذ ويوجب عليه صدقة الفطر والأضحية، وهو أن يملك ما قيمته نصاب فاضلا عن الحوائج الأصلية من غير أموال الزكاة كالثياب والأثاث والعقار والبغال والحمير ونحوه.

قال – عليه الصلاة والسلام -: «لا تحل الصدقة لغني “، قيل: ومن الغني؟ قال: ” من له مائتا درهم» وغني يحرم عليه السؤال والأخذ، ويوجب عليه صدقة الفطر والأضحية، ويوجب عليه أداء الزكاة، وهو ملك نصاب كامل نام على ما بيناه.

البحر الرائق (2/ 428)

 وفي معراج الدراية: قوله ويجوز دفعها إلى من يملك أقل من ذلك ولكنه لا يطيب للآخذ لانه لا يلزم من جواز الدفع جواز الاخذ كظن الغني فقيرا اه‍

فتح القدير (4/ 218)

( قوله : ولا يجوز دفع الزكاة لمن يملك نصابا من أي مال كان ) من فروعها : قوم دفعوا الزكاة إلى من يجمعها لفقير فاجتمع عند الآخذ أكثر من مائتين فإن كان جمعه له بأمره ، قالوا : كل من دفع قبل أن يبلغ ما في يد الجاني مائتين جازت زكاته ، ومن دفع بعده لا تجوز إلا أن يكون الفقير مديونا فيعتبر هذا التفصيل في مائتين تفضل بعد دينه ، فإن كان بغير أمره جاز الكل مطلقا لأن في الأول هو وكيل عن الفقير فما اجتمع عنده يملكه ، وفي الثاني وكيل الدافعين فما اجتمع عنده ملكهم .

وعن أبي يوسف فيمن أراد أن يعطي فقيرا ألفا ولا دين عليه فوزنها مائة مائة وقبضها كذلك يجزيه كل الألف من الزكاة إذا كانت كلها حاضرة في المجلس ودفع كلها فيه بمنزلة ما لو دفعها جملة ، ولو كانت غائبة فاستدعى بها مائة مائة كلما حضرت مائة دفعها إليه لا يجوز منها إلا مائتان والباقي تطوع .

( قوله : والشرط أن يكون فاضلا عن الحاجة ) أما إذا كان له نصاب ليس ناميا وهو مستغرق بحوائجه الأصلية فيجوز الدفع إليه كما قدمنا فيمن يملك كتبا تساوي نصابا ، وهو عالم يحتاج إليها أو هو جاهل لا حاجة له بها ، فيمن له آلات وفرس ودار وعبد يحتاجها للخدمة والاستعمال أو كان له نصاب نام إلا أنه مشغول بالدين ،

الدر المختار وحاشية ابن عابدين (رد المحتار) (2/ 353)

(وكره إعطاء فقير نصابا) أو أكثر (إلا إذا كان) المدفوع إليه (مديونا أو) كان (صاحب عيال) بحيث (لو فرقه عليهم لا يخص كلا) أو لا يفضل بعد دينه (نصاب) فلا يكره فتح.

  • ———————————

(قوله: وكره إعطاء فقير نصابا أو أكثر) وعن أبي يوسف لا بأس بإعطاء قدر النصاب وكره الأكثر؛ لأن جزءا من النصاب مستحق لحاجته للحال والباقي دونه معراج وبه ظهر وجه ما في الظهيرية وغيرها عن هشام قال: سألت أبا يوسف عن رجل له مائة وتسعة وتسعون درهما فتصدق عليه بدرهمين قال: يأخذ واحدا ويرد واحدا اهـ فما في البحر والنهر هنا غير محرر فتدبر وبه ظهر أيضا أن دفع ما يكمل النصاب كدفع النصاب. قال في النهر: والظاهر أنه لا فرق بين كون النصاب ناميا أو لا حتى لو أعطاه عروضا تبلغ نصابا فكذلك ولا بين كونه من النقود أو من الحيوانات حتى لو أعطاه خمسا من الإبل لم تبلغ قيمتها نصابا كره لما مر اهـ. وفي بعض النسخ تبلغ بدون لم والأنسب الأول (قوله: بحيث لو فرقه عليهم) أي على العيال، فهو راجع إلى قوله أو كان صاحب عيال قال في المعراج؛ لأن التصدق عليه في المعنى تصدق على عياله وقوله أو لا يفضل معطوف على قوله لو فرقه وهو راجع إلى قوله مديونا ففيه لف ونشر غير مرتب وقوله: نصاب تنازع فيه يخص ويفضل فافهم.

الدر المختار شرح تنوير الأبصار وجامع البحار (ص: 137)

(ومديون لا يملك نصابا فاضلا عن دينه) وفي الظهيرية: الدفع للمديون أولى منه للفقير

مجمع الأنهر في شرح ملتقى الأبحر (1/ 225)

فإن كان عليه دين يجوز أن يعطيه قدر ما يقضي دينه وزيادة دون مائتين

فتاوى محمودية (٥٢٣/٩)

مقروض کب مستحق زکوۃ ہے؟ سوال [۴۲۲۹] : زید صاحب نصاب ہے لیکن وہ قرض دار ہے، وہ کسی مدرسہ میں پڑھتا ہے اس کے لئے مدرسہ کا کھا نا جائز ہے یا نہیں؟

 الجواب حامدا ومصلياً: اگر وہ مقروض ہے اور مقدار قرض کے علاوہ صاحب نصاب ہے تو زکوۃ وغیرہ کا کھا نا مدرسہ سے نہ لے(۱) اگر مقدار قرض کے علاوہ صاحب نصاب نہیں تو اس کے لئے اجازت ہے (۲) ۔ فقط واللہ تعالی اعلم ۔

فتاوى محمودية (٥٢٤/٩)

مقروض کو زکوة دینا :

سـوال [۱۴۶۲۷ : ۱ – جو کسان قرض میں ڈوبے ہوئے ہیں مثلا کوئی تین ہزار کوئی پانچ ہزار کا قر ضدار ہے، اب ایسے کسانوں کو زکوۃ کا مالک بنا دیا جائے اور وہ فورا اسی جگہ قبضہ کر کے سوسائٹی میں قرض کے عوض جمع کرا د میں تو ایسا کرنے سے صاحب زکوۃ کی زکوۃ ادا ہوگی یا نہیں جبکہ کاشتکار قبضہ کر کے اپنے ہی ہاتھ سے جمع کراۓ گا؟

لجواب: ….مدیون کواتنی زکوۃ دینا درست ہے کہ اس کے ذریعہ دین ادا کر دے پھر بقدر نصاب اس کے پاس باقی نه رہے اس طرح زکوۃ ادا ہو جاۓ گی (۳) ۔ مصرف زکوۃ اس پر مالکانہ قبضہ کر کے اپنادین ادا کر دے اورسبکدوش ہو جاۓ۔

۲…..ایک قرضدار کو ایک دو تین نصاب کی مقدار مال دیا گیا ،مثلا ساڑھے باون تولہ چاندی کی قیمت چھ سوروپے اور چھتیس روپے کے قرضدار کو چاندی کے چھ نصاب کی مقدار مال دیا گیا تو آیا یہ جائز ہے؟

الجواب: یہ بھی درست ہے.

۳. چند حضرات دوکان چلانے کے لئے یا زمین بڑھانے کے لئے یا مکانات بنانے کے لئے رقم صرف کرتے ہیں اور خودکو قرضدار سمجھتے ہیں تو آیا ان کے لئے زکوۃ لینا جائز ہے؟

الجواب: .. ان کے حوائج اصلیہ دین وغیرہ سے فاضل اگر مقدار نصاب ان کی ملک میں نہیں تو وہ مستحق زکوۃ ہیں (۲) فقط واللہ تعالی اعلم ۔

فتاوى قاسمية (٦٦٥/١٠)

الـجـواب وبالله التوفيق :سوالنامہ پرغور کیا گیا اس کے بعد شرعی حکم واضح کیا جارہا ہے، ہمارے مرادآباد میں قرض کے شکار دو قسم کے لوگ ہوتے ہیں ۔ (۱) ایک وہ غریب اور محنت کش لوگ ہیں، جو اپنی محنت ومزدوری اور معمولی کاروبار سے گزارہ کر رہے ہیں، اور بے روز گاری کی وجہ سے اپنے اور اپنے بال بچوں کا پیٹ بھر نے کیلئے دوسروں سے قرض لیکر بچوں کی روٹی روزی کا انتظام کرتے ہیں ، اور پھر محنت ومزدوری کے لیے قرضہ کی ادائیگی کیلئے نہیں ہو پاتے تو ایسے لوگوں کے قرض کی ادائیگی کیلئے زکاۃ دہندگان کا اپنی زکوۃ دینا اور ان کاز کو لیکر اپنا قرض ادا کرنا شرعی طور پر جائز اور درست ہے۔ (۲) دوسرے قسم کے قرضدار وہ لوگ ہوتے ہیں ، جو بڑے اور اونچے کا روبار کرتے ہیں ، اور سرمایہ داری اور تجارت کو فروع دینے کیلئے کبھی سرکار سے قرض لیتے ہیں ، اور بھی سرمایہ دار دوستوں سے قرض لیتے ہیں ، ایسے قرض کی ادائیگی کیلئے زکاۃ کا پیسہ نہیں ہوتا ہے، کیونکہ وہ فقراء اور غرباء کا حق ہے، اور بسا اوقات لوگ ایسا بھی کرتے ہیں کہ کوئی چیز مہنگے ریٹ میں ادھار میں خریدتے ہیں ، اور پھر نقد میں سستی بیچتے ہیں ، مثلا کوئی چیز ۲۲۰ روپے ادھار میں خرید کر ۲۰ روپیہ کا نقصان اٹھا کر ۱۲۰۰ روپیہ میں فروخت کر دیتے ہیں ، تا کہ نقد پیسہ ہاتھ میں آ جاۓ ، اور اس طرح کرتے ہوۓ دسیوں لاکھ رو پیداپنے اوپر قصدا قرض میں پڑھا لیتے ہیں ، بیضرورت کا قرض نہیں ہے بلکہ بالقصد دوسروں کے پیسے کو ہڑپ کرتا ہے ، پھر اس طرح کے قرض لینے کے بعد دوسرے سرمایہ داروں سے اس قرض کی ادائیگی کیلئے دسیوں لاکھ کی بھیک مانگتے پھرتے ہیں ، ایسے قرض کی ادائیگی میں زکوۃ دہندگان کا اپنی زکوۃ دینا نا جائز اور فقراء ومستحقین کی سخت ترین حق تلفی ہے ، اس طرح قرض لینے والے اپنی جائیداد اپنا گھر سب کچھ بیچ کر اپنا قرض ادا کر یں ۔

فتاوى قاسمية (٦٦٨/١٠)

الجواب وبالله التوفيق:اگر وہ شخص قرضہ مجری کرنے کے بعد ساڑھے باون تولہ چاندی کی قیمت ( تقریبا چار ہزار روپیہ ) کی مالیت کا مالک رہ جائیگا تو مزکوۃ میں سے اس کو دینا جائز نہ ہوگا ، اور اگر قرضہ کو مجری کرنے کے بعد چار ہزار روپیہ کا مالک نہیں رہتا ہے، تو اس کو قرض ادا کرنے کیلئے مد زکوۃ میں سے دینا جائز ہوگا، اگر ایک دوخص کے دینے سے قرض ادا ہو کر چار ہزار کا مالک بھی ہو جا تا ہے،تو اس کے بعد کسی اور شخص سے زکوۃ کا پیسہ لینا جائز نہ ہوگا، اور نہ ہی زکوۃ دہندہ کی زکوۃ ادا ہوگی ، اس کا لحاظ رکھتے ہوۓ صاحب حیثیت حضرات سے ملاقات کر سکتے ہیں۔

فتاوى قاسمية (٦٧١/١٠)

الجواب وبالله التوفيق:اگر مذکورہ شخص مالی اعتبار سے اتنا کمزور ہے کہ جس کی وجہ سے وہ مستحق زکوۃ ہے اور اس کے یہاں زیورات بھی نہیں ہیں ، تو مد زکاۃ سے اس کی امداد کی گنجائش ہے۔

الفتاوى الهندية – ط. دار الفكر (1/ 189)

وكذا لو كان له حوانيت أو دار غلة تساوي ثلاثة آلاف درهم وغلتها لا تكفي لقوته وقوت عياله يجوز صرف الزكاة إليه في قول محمد رحمه الله تعالى ولو كان له ضيعة تساوي ثلاثة آلاف ولا تخرج ما يكفي له ولعياله

فتازى محمودية (٥٧٢/٩)

جس کے پاس زمین ہو گیا وہ مستحق زکوۃ ہے؟ سوال ۴۹۸۰] ایک شخص کی بہت سی زمین ہے مگر وہ آباد ہیں تو اس شخص کوز کو دی جاسکتی ہے یانہیں؟

الجواب حامداً ومصلياً:

جبکہ ان زمینوں سے اس کی حوائج پوری نہیں ہوتیں اور وہ مال نامی بھی نہیں تو اس کو زکوۃ دینا درست ہے(۲)۔ فقط واللہ تعالی اعلم ۔

Related Articles

Back to top button