FOODS

Permissibility of Eating Bananas at Night & Drinking Water During Exercise

Question:

Assalamualaikum,

I have heard that the eating of bananas at night is not good for an individual and is prohibited.

I have also heard that drinking water etc whilst exercising is also prohibited. Drinking water after you done is fine but drinking water whilst exercising is not.

MuftiSaab is there truth in these statements.

Answer:

In the Name of Allah, the Most Gracious, the Most Merciful.

As-Salāmu ‘Alaykum Wa-Rahmatullāhi Wa-Barakātuh.

There is no Shar’i prohibition from consuming bananas at night time and water during exercise.[1]

These statements seem to be medical suggestions of some doctors or experienced individuals as precautionary measures for the preservation of health.[2]

These suggestions bear no influence on the Shar’i ruling; however, if they are proven to be potent, then it will be preferable to practice such advices.[3]

To determine the authenticity of these suggestions, one may consult the experienced doctors.

And Allah Ta’ala Knows Best.

Sibghatallah ibn Numan Ahmed

Student – Darul Iftaa

Baltimore, Maryland, USA

Checked and Approved by,

Mufti Muhammad Zakariyya Desai.

[1] زاد المعاد في هدي خير العباد لابن قيم الجوزي ت ٧٥١ه (٤/٢٠٥) مؤسسة الرسالة ومكتبة المنار الإسلامية

‌ولم ‌يكن ‌من ‌هديه أن يشرب على طعامه فيفسده، ولا سيما إن كان الماء حارا أو باردا، فإنه رديء جدا … ويكره شرب الماء عقيب الرياضة، والتعب، وعقيب الجماع، وعقيب الطعام وقبله، وعقيب أكل الفاكهة، وإن كان الشرب عقيب بعضها أسهل من بعض، وعقب الحمام، وعند الانتباه من النوم، فهذا كله مناف لحفظ الصحة، ولا اعتبار بالعوائد، فإنها طبائع ثوان.

فتاوى قاسمية لشبير أحمد (٢٤/٤٤) اشرفی بک ڈپو

ابن قیم نے فرمایا کہ کھانے سے پہلے اور کھانے کے بعد پانی پینا مکروہ ہے، اسی طرح تھکاوٹ کے بعد، جماع کے بعد ریاضت کے بعد، پھل کھانے کے بعد پانی پینے کومکر و لکھا ہے لیکن کراہت پر کوئی دلیل نہیں نقل فرمائی ، شایدلی نقطہ نظر سے نقصان دہ ہونے کی وجہ سے ابن قیم نے مکروہ لکھا ہے، طیبی دلیل ان کے پاس ہے شرعی دلیل نہیں ہے.

فتاوى دار العلوم زكريا لرضاء الحق (٦/٦١٥-٦١٦) زمزم پبلشرز

علماء نے احادیث کی روشنی میں پانی پینے کے کچھ آداب بیان فرمائے ہیں، چند حسب ذیل ملاحظہ کیجئے: (۱) پانی پینے سے پہلے بسم اللہ پڑھنا. (۲) تین سانس سے پینا. (۳) ہر مرتبہ ابتدا میں بسم اللہ اور انتہا مں الحمد للہ کہنا. (٤) بیٹھ کر پینا. (۵) پانی پینے سے قبل برتن کو دیکھ لینا. (٦) برتن میں سانس نہ لینا. ( ۷ ) داہنے ہاتھ سے پینا. (۸) پانی چوس کر پینا ، فٹ غٹ جانور کی طرح اتارنا مکروہ ہے. (۹) گلاس یا پیالے کے ٹوٹے ہوۓ حصے کی طرف سے نہ پینا. (۱۰) پانی پینے کے بعد یہ دعا پڑھنا: “الحمد لله الذي سقانا عذباً فراتاً برحمته ولم يجعله ملحاً أجاجاً بذنوبنا”.

[2] فتاوى قاسمية لشبير أحمد (٢٣/٢٣٠) اشرفی بک ڈپو

سوال:  کیا فرماتے ہیں علمائے دین ومفتیان شرع متین مسئلہ ذیل کے بارے میں: ایک صاحب آئترم ترم کے حوالے سے فرماتے ہیں کہ مفتی شبیر صاحب نے ارشاد فرمایا ہے کہ جب کیلے کھا ئیں تو ایک نہ کھائیں بلکہ دوکھائیں، معلوم یہ کرتا ہے کہ آنجناب کا ی فرماتا از روۓ طلب ہے یا شرعاً کوئی ہدایت ہے؟

باسمه بحانہ تعالی الجواب وبالله التوفيق: احقر نے دو کیلے کھانے کی بات اور خود احقر کو یادبھی ہے کہ کئی جگہ کیلے کھاتے وقت کہا ہے، یہ شریعت کے نقطہ نظر سے نہیں ہے، بلک فن طب اور حکیموں کے مشورہ سے کہا ہے کہ ایک کیلا قبض کرتا ہے اور دو کیلے قبض کشا ہیں. فقط واللہ سبحانہ وتعالی اعلم.

فتاوى دار العلوم زكريا لرضاء الحق (٦/٥٥٣) زمزم پبلشرز

سوال: کیلا کھانے کا کیا طریقہ ہے؟ بعض لوگ کہتے ہیں کہ کھاتے وقت تین حصوں میں تقسیم کرے پھر کھاۓ، کیا یہ طریقہ وارد ہے؟

الجواب : کیلے کو داہنے ہاتھ سے پکڑے اور بائیں ہاتھ سے چھلکا اتارے اور بسم اللہ پڑھ کر داہنے ہاتھ سے کھائیں اور اللہ تعالی کا شکر یہ ادا کرے اور کھانے میں اسراف نہ کرے اگر دوست موجود ہو تو اس کو بھی کھلائیں.

[3] الفتاوى الهندية (٥/٣٥٥) المطبعة الكبرى الأميرية

اعلم بأن الأسباب المزيلة للضرر تنقسم إلى مقطوع به كالماء المزيل لضرر العطش والخبز المزيل لضرر الجوع وإلى مظنون كالفصد والحجامة وشرب المسهل وسائر أبواب الطب أعني معالجة البرودة بالحرارة ومعالجة الحرارة بالبرودة وهي الأسباب الظاهرة في الطب وإلى موهوم كالكي والرقية أما المقطوع به فليس تركه من التوكل بل تركه حرام عند خوف الموت وأما الموهوم فشرط التوكل تركه إذ به وصف رسول الله – صلى الله عليه وسلم وآله – المتوكلين وأما الدرجة المتوسطة وهي المظنونة كالمداواة بالأسباب الظاهرة عند الأطباء ففعله ليس مناقضا للتوكل بخلاف الموهوم وتركه ليس محظورا بخلاف المقطوع به بل قد يكون أفضل من فعله في بعض الأحوال وفي حق بعض الأشخاص فهو على درجة بين الدرجتين كذا في الفصول العمادية في الفصل الرابع والثلاثين.

Related Articles

Back to top button