Extra lighting inside and outside the Masjid
Question:
کیا فرماتے ہیں علمائے دین اس مسئلے کے بارے میں کہ ہمارے ہاں انگلینڈ میں ایک امام صاحب ہیں، رمضان المبارک کے اخیر جب عید قریب آتی ہے تو وہ اپنی مسجد کے اندر اور باہر چراغاں کرتے ہیں (جس کو آج کل لائٹنگ کہتے ہیں) جیسے شادی بیاہ کے موقع پر عام لوگ کرتے ہیں۔ ان سے کسی نے پوچھا یہ کیا ہے حضرت؟ تو جواباً انہوں نے فرمایا کہ میں اس لئے کرتا ہوں کہ کافر لوگوں کو پتہ چل جائے کہ مسلمانوں کی عید اور خوشی کا دن ہے، آیا ان امام صاحب کی یہ دلیل صحیح ہے کہ میں یہ کام عام کافروں کے لئے کرتا ہوں؟
تو کیا ان امام صاحب کا یہ عمل شریعت کے موافق ہے؟
آج کل تو لائٹنگ کرنا چراغاں کرنا بریلوی فرقہ کی علامت بن چکی ہے۔ کیا ہمارے حضرات علماء دیوبند کا یہ مزاج رہا ہے؟
دوسرا سوال: آج کل اکثر مساجد میں ضرورت سے زائد لائٹنگ کا استعمال زیادہ ہوتا ہے تو کیا اس کی گنجائش ہے؟
اس پر چراغاں کو قیاس کرنا کیسا ہے؟
جواب بالتفصیل عنایت فرمائیں
جزاکم اللہ خیرا
Answer:
In the Name of Allah, the Most Gracious, the Most Merciful.
As-Salāmu ‘Alaykum Wa-Rahmatullāhi Wa-Barakātuh.
شریعت میں عید کے مواقع مسلمانوں کے لئے شریعت کی حدود سے تجاوز کیے بغیر لطف اندوز ہونے اور جشن منانے کے لئے قائم کیے گئے ہیں۔ لہذا، ایسے مواقع پر مسلمانوں کو اپنی خوشی اور لطف أندوزی کا اظہار کرنے کی اجازت ہے ان ذرائع سے جو شریعت میں ممنوع نہیں ہیں۔ ایک ذریعہ جو لوگوں میں عام رواج بن چکا ہے وہ ہے گھروں اور عمارتوں کو سجانے کے لئے لائٹنگ کا استعمال۔
اب چونکہ انگلیند کے عرف کے مطابق غیر مسلموں اور اہل بدعت کے ساتھ مشابہت ہونے کا بڑا امکان ہے، نیز امام صاحب کا کفار کو دکھانا مقصود ہے، اس لئے امام صاحب کا مسجد میں چراغاں کرنا درست نہیں۔
جہاں تک مسجد کے عام لائٹنگ کی بات ہے تو مسجد کو روشن کرنا اور خوبصورت بنانا جائز ہے جب تک کہ اسراف نہ ہوں۔ اضافی لائٹنگ (جو ضرورت سے زائد ہو) کسی کا ذاتی مال کے ساتھ خریدا جاسکتا ہے، مسجد کے وقف کی رقم سے نہیں۔
Translation: The occasions of Eid have been established by Shari’ah for enjoyment and celebration for Muslims without exceeding the boundaries of Shari’ah. Hence, on such occasions, it is permitted for Muslims to express their happiness and joy through means which are not prohibited in Shari’ah.[1] One method that has become common amongst the people is the use of lighting to decorate residences and other places.
According to the ‘urf (custom) in England, there is a strong possibility of being mistaken for non-Muslims and innovators in the area by decorating buildings with lighting.[2] Furthermore, the Imam’s intention to show the non-Muslims is invalid.[3]
Accordingly, the Imam should not decorate the Masjid with extra lighting.
As for general lighting in the masjid, it is permissible to decorate and beautify the Masjid with lighting as long as there is no excessive expenditure.[4] Additional lighting (beyond what is necessary) may be purchased with one’s personal wealth, not with the waqf money of the Masjid.[5]
And Allah Ta’āla Knows Best.
Abdullah ibn Masud Desai
Student Darul Iftaa
Blackburn, UK
Checked and Approved by,
Mufti Muhammad Zakariyya Desai.
[1] سنن أبي داود، كتاب الضحايا، باب في حبس لحوم الأضاحي
2813 – حَدَّثَنَا مُسَدَّدٌ، حَدَّثَنَا يَزِيدُ بْنُ زُرَيْعٍ، حَدَّثَنَا خَالِدٌ الْحَذَّاءُ، عَنْ أَبِي الْمَلِيحِ، عَنْ نُبَيْشَةَ قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: (إِنَّا كُنَّا نَهَيْنَاكُمْ عَنْ لُحُومِهَا أَنْ تَأْكُلُوهَا فَوْقَ ثَلَاثٍ لِكَيْ تَسَعَكُمْ، فَقَدْ جَاءَ اللَّهُ بِالسَّعَةِ، فَكُلُوا، وَادَّخِرُوا، وَاتَّجِرُوا، أَلَا وَإِنَّ هَذِهِ الْأَيَّامَ أَيَّامُ أَكْلٍ وَشُرْبٍ وَذِكْرِ اللَّهِ عَزَّ وَجَلَّ).
[2] رد المحتار على الدر المختار (ت.1252)، ج.1، ص.624، ايج ايم سعيد
وهما بها للتشبه بأهل الكتاب: أي إن قصده؛ فإن التشبه بهم لا يكره في كل شيء، بل في المذموم وفيما يقصد به التشبه، كما في البحر.
——————–
(قوله لأن التشبه بهم لا يكره في كل شيء) فإنا نأكل ونشرب كما يفعلون بحر عن شرح الجامع الصغير لقاضي خان، ويؤيده ما في الذخيرة قبيل كتاب التحري. قال هشام: رأيت على أبي يوسف نعلين مخصوفين بمسامير، فقلت: أترى بهذا الحديد بأسا؟ قال لا قلت: سفيان وثور بن يزيد كرها ذلك لأن فيه تشبها بالرهبان؛ فقال (كان رسول الله – صلى الله عليه وسلم – يلبس النعال التي لها شعر) وإنها من لباس الرهبان. فقد أشار إلى أن صورة المشابهة فيما تعلق به صلاح العباد لا يضر، فإن الأرض مما لا يمكن قطع المسافة البعيدة فيها إلا بهذا النوع. اهـ وفيه إشارة أيضا إلى أن المراد بالتشبه أصل الفعل: أي صورة المشابهة بلا قصد.
رد المحتار على الدر المختار (ت.1252)، ج.6، ص.753، ايج ايم سعيد
أقول: وكراهة التشبه بأهل البدع مقررة عندنا أيضا لكن لا مطلقا، بل في المذموم وفيما قصد به التشبه بهم كما قدمه الشارح في مفسدات الصلاة.
تحفۃ العلماء، ج.2، ص.128/129، ادارۂ تالیفات اشرفیہ
تشبہ کے اقسام واحکام:
(۱) تشبہ بالکفار اعتقادات وعبادات میں کفر ہے اور مذہبی رسومات میں حرام ہے جیسا کہ نصاری کی طرح سینہ پر صلیب لٹکانا اور ہنود کی طرح زنار باندھنا ایسا تشبہ بلا شبہ حرام ہے۔
تشبہ بالکفار امور مذہبیہ میں حرام ہے جو چیزیں دوسری قوموں کی مذہبی وضع ہیں ان کا اختیار کرنا کفر ہوگا جیسے صلیب لٹکانا، سر پر چوٹی رکھنا “یا جے” پکارنا۔
(۲) معاشرت اور عبادات اور قومی شعار میں تشبہ مکروہ تحریمی ہے مثلا کسی قوم کا وہ مخصوص لباس استعمال کرنا جو خاص انہی کی طرف منسوب ہو، اور اس کا استعمال کرنے والا اسی قوم کا ایک فرد سمجھا جانے لگے جیسے نصرانی ٹوپی (یعنی ہیٹ) اور ہندوانہ دھوتی، یہ سب ناجائز اور ممنوع ہے اور تشبہ میں داخل ہے۔
وعلی ہذا، کافروں کی زبان اور ان کے لب ولہجہ اور طرز کلام کو اس لئے اختیار کرنا کہ ہم بھی انگریزوں کے مشابہ بن جائیں تو بلاشبہ ممنوع ہوگا۔
(۳) اور جو چیزیں دوسری قوموں کی نہ قومی وضع ہیں نہ مذہبی وضع ہیں گو ان کی ایجاد ہوں اور عام ضروریات کی چیزیں ہیں جیسے دیا سلائی یا گھڑی یا نئے ہتھیار یا نئی ورزشیں جن کا بدل ہماری قوم میں نہ ہو اس کا برتنا جائز ہے مگر ان جائز چیزوں کی تفصیل اپنی عقل سے نہ کریں بلکہ علماء سے پوچھ لیں۔
ایجادات و انتظامات اور اسلحہ اور سامان جنگ میں غیر قوموں کے طریقے لے لینا جائز ہے جیسے بندوق ہوائی جہاز وغیرہ یہ درحقیقت تشبہ نہیں مگر شرط یہ ہے کہ اس کے استعمال سے نیت وارادہ کافروں کی مشابہت کا نہ ہو یہ ان ایجادات کا حکم ہے جن کا بدل مسلمانوں کے پاس نہیں اور جو ایسی ایجاد ہوں کہ جس کا بدل مسلمانوں کے پاس موجود ہو تو اس میں تشبہ مکروہ ہے۔
(۴) مسلمانوں میں جو فاسق یا بدعتی ہیں ان کی وضع اختیار کرنا بھی گناہ ہے پھر ان سب ناجائز وضعوں میں اگر پوری وضع بنائی تو زیادہ گناہ ہوگا اور اگر ادھوری بنائی تو اس سے کم ہوگا۔
تشبہ کے احکام کا خلاصہ:
تشبه بالكفار امور مذہبیہ میں تو حرام ہے اور شعار قومی میں مکروہ تحریمی ہے باقی ایجادات اور انتظامات میں جائز ہے وہ حقیقت میں تشبہ ہی نہیں اور جو چیزیں کہ کفار ہی کے پاس ہوں اور مسلمانوں کے یہاں اس کا بدل نہ ہو، اور وہ شئی کفار کا شعار قومی یا امر مذہبی نہ ہو تو اس کا اختیار کرنا جائز ہے جیسے بندوق ہوائی جہاز وغیرہ اور جو ایجاد ایسی ہیں جس کا بدل مسلمانوں کے یہاں بھی موجود ہے اس میں تشبہ مکروہ ہے جیسے رسول اللہ ﷺ نے فارسی کمان سے منع فرمایا۔
التشبہ فی الاسلام، ص.104-106، مکتبۃ البشری
قبیح بالذات أمور: اور اگر تعودی یا معاشرتی امور ہوں، تو پھر ان کی دو صورتیں ہیں: یا وہ قبیح بالذات ہوں گے یا مباح بالذات، اگر قبیح بالذات ہیں تو ان میں بھی تشبہ حرام ہے، جیسے مثلاً ٹخنوں سے نیچا پتلون، یا مکفف بالحریر، کوٹ یا کسی قوم کی ایسی حرکت جس میں ان کے معبودان باطلہ کی کوئی عظمت ظاہر کی جاتی ہو وغیرہ، کیوں کہ تشبہ بالغیر کے علاوہ ان میں صریح حرمتیں بھی موجود ہیں کہ اسبال خیلا، تکفیف حریر، تعظیم اصنام وغیرہ خود بالذات ممنوعات شرعیہ ہیں۔
شعار اقوام: اور اگر وہ امور مباح بالذات ہیں، تو پھر دو صورتیں ہیں: یا وہ امور کسی غیر قوم کا شعار اور امتیازی نشان ہوں گے یا ایسا نہ ہوگا، اگر شعار ہیں تو پھر بھی کہ قریب بہ حرام ہے، جس کو فقہاء نے اپنی اصطلاح میں مکروہ تحریمی سے تعبیر کیا ہے، مثلا: غیر اقوام کا وہ مخصوص لباس جو صرف ان ہی کی طرف منسوب اور ان ہی کی نسبت سے مشہور ہوا اور اس کے استعمال سے استعمال کرنے والا اسی قوم کا فرد سمجھا جانے لگے، جیسے: نصرانیوں کی ٹوپی یا کسی قوم کا کلامی شعار یار جز وغیرہ، جس کی تفصیل اپنے موقع پر آ جائے گی۔
ذی بدل اشیا: اور اگر غیر شعار ہیں تو پھر دو صورتیں ہیں: یا وہ غیر شعار امور ایسے ہوں گے کہ جن کا بدل مسلمانوں کے یہاں موجود ہوگا یا نہیں، اگر ان کا بدل موجود ہے تو پھر ان امور میں بھی تشبہ مکروہ ہے، کیوں کہ اسلامی غیرت وحمیت کا اقتضا یہی ہے کہ ہم اقوام کی ان اشیا کو ترک کریں جن کا بدل ہمارے پاس موجود ہے، ورنہ یہ ایک بے عزتی اور اپنے آپ کو خواہ مخواہ اغیار کا دست نگر بنا دینا ہے، جیسے جناب رسول اللہ ﷺ دست مبارک میں عربی کمان لیے ہوئے تھے کہ آپ نے کسی کے ہاتھ میں فارسی کمان دیکھی تو ناخوشی سے فرمایا کہ “یہ کیا لیے ہوئے ہو؟ اسے پھینک دو اور عربی کمان رکھو کہ جس کے ذریعے خدا نے تمھیں قوت وشوکت دی اور بلاد ارض کو مفتوح کیا”۔ چوں کہ فارسی کمان کا بدل عربی کمان موجود تھی، اس لیے غیرت دلا کر حضور ﷺ نے روک دیا، تاکہ غیر اقوام کے ساتھ ہر ممکن سے ممکن امتیاز پیدا ہوجاۓ اور چھوٹے سے چھوٹا اشتراک بھی منقطع ہو کر ایک مسلم اپنی ہی ہستی کے ساتھ نمایاں ہو، ورنہ اگر مسلم قوم اپنے گھر سے بے خبر ہو کر بلکہ اپنے گھر کو آگ لگا کر دوسروں کی عادات ومعاشرت کا اتباع کرنے لگیں تو ان کی مثال ایسی ہی ہو جاۓ گی کہ
یک سبد پرنان را بر فرق سر
توہمی جوئی لب نان در بدر
تابه زا نوۓ میان قعر آب
و زعطش و زجوع گشتستی خراب
منوی التشبہ امور: ہاں! اگر غیر اقوام کی اشیا ایسی ہیں کہ ان کا کوئی بدل مسلمانوں کے پاس نہیں، جیسے: آج یورپ کی نئی نئی ایجادات، جدید اسلحہ، تمدن و معاشرت کے نئے نئے سامان، تو اس کی پھر دو صورتیں ہیں: یا ان کا استعمال تشبہ کی نیت سے کیا جاۓ یا بغیر نیت تشبہ، پہلی صورت میں استعمال جائز نہ ہوگا، کیوں کہ تشبہ بالکفار کو نیتا وارادتا مقصود بنا لینا ان کی طرف میلان ورغبت بغیر نہیں ہوسکتا اور کفار کی طرف میلان یقینا اسلام کی چیز نہیں، بلکہ اسلام سے نکال دینے والی چیز ہے۔ قرآن کریم نے تو صاف اعلان فرمایا ہے۔
(ولا تركنوا إلى الذين ظلموا فتمسكم النار)
نیز غیر مسلموں کی کورانہ تقلید کسی مسلم کو بھی بام عروج پر نہیں پہنچاسکتی، جیسا کہ ظلمت کی تقلید نور کی چمک میں، مرض کی تقلید صحت میں اور کسی ضد کی تقلید دوسری ضد میں کوئی اضافہ وقوت نہیں پیدا کرسکتی۔ ہاں! اگر ان چیزوں میں تشبہ کی نیت نہ ہو، بلکہ اتفاقی طور پر استعمال میں آرہی ہوں تو ضرورت کی حد تک ان کے استعمال میں کوئی شرعی حرج نہیں۔
تحفۃ العلماء، ج.2، ص.130/131، ادارۂ تالیفات اشرفیہ
تشبہ ختم ہوجانے کی پہچان:
پہچان یہ ہے کہ ان چیزوں کے دیکھنے سے عام لوگوں کے ذہن میں یہ کھٹک نہ ہو کہ یہ وضع تو فلانے لوگوں کی ہے جیسے انگر کھایا اچکن پہننا، مگر جب تک یہ خصوصیت ہے اس وقت تک منع کیا جائے گا، جیسے ہمارے ملک میں کوٹ پتلون پہننا، دھوتی باندھنا یا عورتوں کو لہنگا پہننا (البتہ اگر یہاں پر بھی کوٹ پتلون عام ہوجائے کہ ذہن سے خصوصیت جاتی رہے تو ممنوع نہ ہوگا مگر) جب تک دل میں کھٹک ہے اس وقت تک تشبہ کی وجہ سے ناجائز رہے گا۔
[3] منحة السلوك في شرح تحفة الملوك (ت.855)، ج.1، ص.467، وزارة الأوقاف قطر
قوله: (وحرام) أي القسم الرابع: حرام (وهو كسب ما أمكن) للتفاخر والتكاثر والأشر والبطر، وإن كان من حل، لأنه سبب يتوصل به إلى إقامة ما هو مكروه فيكون مكروهاً.
احسن الفتاوی، ج.8، ص.147، ایچ ایم سعید
مصارف کے پانچ درجات ہیں :
(۱) ضرورت۔
(۲) حاجت۔
(۳) آسائش۔
(۴) آرائش وزیبائش۔
(۵) نمائش۔
ضرورت: جو لوازم زندگی میں سے ہو، اس کے نہونے سے ضرر لاحق ہو جیسے بقدر کفایت طعام ولباس وغیرہ۔
حاجت: جس کے نہ ہونے سے ضرر تو نہ ہو مگر گزارا مشکل ہو، جیسے قدر کفایت سے زائد حاجات میں کام آنے والی اشیاء۔
آسائش: حاجت سے زائد آرام و راحت کی اشیاء۔
آرائش و زیبائش: صرف زیب وزینت کی اشیاء۔
نمائش: جس سے فخر ونمود مقصود ہو۔
ضرورت پر خرچ کرنا فرض ہے اور حاجت، آسائش، آرائش وزیبائش پر خرچ کرنا جائز ہے بشرطیکہ اسراف نہ ہو۔ اسراف یہ ہے کہ بلا ضرورت آمدن سے زائد خرچ کرے ۔
نمائش کیلئے خرچ کرنا حرام ہے۔ زیبائش اور نمائش فعل قلب کے قبیل سے ہیں، دونوں میں فرق صرف نیت سے ہوتا ہے، اس لئے بلاوجہ کسی پر نمائش کاحکم لگانا صحیح نہیں۔
[4] منحة السلوك في شرح تحفة الملوك (ت.855)، ج.1، ص.467، وزارة الأوقاف قطر
قوله: (ومباح) أي القسم الثالث: مباح (وهو كسب الزايد على ذلك) أي على ما يواسي به الفقير، ويصل به القريب، للتنعم والتجمل والترفه، حتى يبنى البنيان، وينقش الحيطان ويشتري السراير والغلمان، لقوله تعالى: (قُلْ مَنْ حَرَّمَ زِينَةَ اللَّهِ الَّتِي أَخْرَجَ لِعِبَادِهِ وَالطَّيِّبَاتِ مِنْ الرِّزْقِ) [الأعراف: 32]. وقوله تعالى: (كُلُوا مِنْ طَيِّبَاتِ مَا رَزَقْنَاكُمْ) [البقرة: 172]. وقوله عليه السلام: (المال الصالح للرجل الصالح).
وقيل: هذا مكروه، لأنه ربما يكون سبباً للطغيان والعصيان والتكاثر والتفاخر، وذلك حرام شرعاً.
أحكام القرآن للجصاص (ت.370)، ج.3، ص.43/44، دار الكتب العلمية
والإسراف وضده مذمومان، والاستواء هو التوسط؛ ولذلك قيل: دين الله بين المقصور والغالي، قال الله تعالى: (والذين إذا أنفقوا لم يسرفوا ولم يقتروا وكان بين ذلك قواما) وقال لنبيه ﷺ: (ولا تجعل يدك مغلولة إلى عنقك ولا تبسطها كل البسط فتقعد ملوما محسورا).
روح المعاني (ت.1270)، ج.19، ص.104، مؤسسة الرسالة
وقال أبو عبد الرحمن الحبلي: الإسراف: هو الإنفاق في المعاصي، والقتر: الإمساك عن طاعة. وروي نحو ذلك عن ابن عباس ومجاهد وابن زيد.
وقال عون بن عبد الله بن عتبة: الإسراف أن تنفق مال غيرك.
[5] البحر الرائق شرح كنز الدقائق (ت.970)، ج.5، ص.232، دار الكتاب الإسلامي
فعلى هذا الموقوف على إمام المسجد لا يصرف لغيره وفي الخانية رجل أوصى بثلث ماله لأعمال البر هل يجوز أن يسرج المسجد منه قال الفقيه أبو بكر يجوز ولا يجوز أن يزاد على سراج المسجد لأن ذلك إسراف سواء كان ذلك في رمضان أو غيره ولا يزين المسجد بهذه الوصية. اهـ.
ومقتضاه منع الكثرة الواقعة في رمضان في مساجد القاهرة ولو شرط الواقف لأن شرطه لا يعتبر في المعصية وفي القنية وإسراج السرج الكثيرة في السكك والأسواق ليلة البراءة بدعة وكذا في المساجد ويضمن القيم وكذا يضمن إذا أسرف في السرج في رمضان وليلة القدر ويجوز الإسراج على باب المسجد في السكة أو السوق ولو اشترى من مال المسجد شمعا في رمضان يضمن قلت: وهذا إذا لم ينص الواقف عليه ولو أوصى بثلث ماله أن ينفق على بيت المقدس جاز وينفق في سراجه ونحوه قال هشام فدل هذا على أنه يجوز أن ينفق من مال المسجد على قناديله وسرجه والنفط والزيت اهـ.
احسن الفتاوی، ج.8، ص.152/153، ایچ ایم سعید
تقاریب میں چراغاں کرنا:
سوال: شادی یا کسی خوشی کے موقع پر مکان کو بجلی کی چھوٹی چھوٹی رنگین بتیوں سے مزین کیا جاتا ہے، شرعا ایسا کرنا جائز ہے یا نہیں؟ بینوا توجروا۔
الجواب باسم ملهم الصواب
بقصد زینت چراغاں کرنا جائز ہے بہ نیت تفاخر وریاء جائز نہیں۔
سوال مثل بالا
سوال: بعض دینی جلسوں شادی کے اجتماع پر چھوٹے چھوٹے بلب کثیر تعداد میں زینت کے لئے لگا دیتے ہیں اور رنگین جھنڈیاں بھی لگاتے ہیں، کیا یہ اسراف نہیں ہے؟ اور تعدد بلب میں دیوالی سے مشابہت نہیں ہے؟ البتہ قصد مشابہت کا نہیں ہوتا، کیا علامہ شامی رحمہ اللہ تعالی کا قاعدہ کلی المراد بالتشبہ ما قصد بہ التشبہ سے یہ عمل خارج از تشبہ نہ سمجھا جاۓ گا؟ بینوا توجروا۔
الجواب باسم ملهم الصواب
عدم قصد تشبہ کی وجہ سے دیوالی سے مشابہت کی علت صحیح نہیں اور اسراف اس کو کہتے ہیں کہ آمد سے زائد خرچ کیا جائے، اور اگر آمد کے اندر خرچ ہو تو اسراف نہیں ماکولات، مشروبات ملبوسات، مکان اور سواری وغیرہ پر ضرورت سے زائد مصارف کو کیوں اسراف نہیں کہتے؟ اسراف کو صرف بتیوں اور جھنڈیوں کے ساتھ مخصوص کرنے کی کیا وجہ ہے؟ در حقیقت آسائش و آرائش پر خرچ کرنا فی نفسہ مباح بلکہ بعض صورتوں میں مستحسن ہے۔
قال الله تعالى: قل من حرم زينة الله التي اخرج لعباده والطيبت من الرزق قل هي للذين آمنوا في الحيوة الدنيا خالصة يوم القيامة۔
حضرت عثمان رضی اللہ تعالی عنہ نے مسجد نبوی کو منقش سنگ مرمر سے مزین فرمایا اس پر کسی صحابی نے کوئی اعتراض
نہیں کیا، اس لئے حضرت عثمان رضی اللہ تعالی عنہ کی اس تزیین کا جواز باجماع صحابہ رضی اللہ تعالی عنہم ثابت ہوا۔ البتہ آرائش و زمین پر مال وقف خرچ کرنا جائز نہیں، جس کو شوق ہو وہ اپنے ذاتی مال سے کرے یا چندہ دہندگان سے اجازت لے، جہاں اس قسم کی تزیین کا عام دستور ہو اور چندہ دہندگان کو اس کا علم ہو وہاں ان سے صراحۃ اجازت لینا ضروری نہیں، دلالت اذن ہی کافی ہے۔ واللہ سبحانہ وتعالی اعلم۔