SALAHSalah of a Musafir [Traveler]

Qasr Salah at the airport?

Question:

Assalamu Alaikum , I have a question regarding qasr namaz while travelling between two countries via airport. At what point exactly does one enter the stage of qasr salat while travelling via plane After one has had passport stamped with exit from immigration and waiting for flight in departure lounge would one offer qasr salat or complete salat. Physically the person is still in the same city but logically a person has exited the city. Similarly with the case of arrival at the other airport and immigration entry. Regards

Answer:

In the Name of Allah, the Most Gracious, the Most Merciful.

As-Salāmu ‘Alaykum Wa-Rahmatullāhi Wa-Barakātuh.

In principle, if one has set out on a journey which is more than Shari Safr distance (approximately 78km), then as soon as he/she has exited the city boundaries, Qasr Salah will be performed.

In the enquired situation, if the airport is within the limits of his hometown, then the complete Salah will be performed. However, if the airport is beyond the limits of his hometown, then Qasr Salah will be performed.[1]

And Allah Ta’ala Knows Best.

Shahid Shaikh

Student Darul Iftaa
New Jersey, U.S.A

Checked and Approved by,
Mufti Muhammad Zakariyya Desai.

[1] فتاوى الولوالجية (١/١٣١)

الـمـسـافـر إذا خـرج مـن الـمـصـر وبقرب من المصر قرية إن كانت القرية متصلة بالمصر لا يقصر الصلاة؛ لأنها من جملة المصر.

الهداية (١/١٦٦)

وإذا فارق الـمـسـافـربـيـوت الـمـصـر صـلى ركعتين لأن الإقامة تتعلق بدخولهافيتعلق السفر بالخروج عنها وفيه الأثر عن على لوجاوزنا هذا الخص لقصرنا.

مصنف عبد الرزاق الصنعاني (2/ 529)

4319 – عَنِ الثَّوْرِيِّ، عَنْ دَاوُدَ، عَنْ أَبِي حَرْبِ بْنِ أَبِي الْأَسْوَدِ الدِّيَلِيِّ، أَنَّ عَلِيًّا لَمَّا خَرَجَ إِلَى الْبَصْرَةِ رَأَى خُصًّا فَقَالَ: «لَوْلَا هَذَا الْخُصُّ لَصَلَّيْنَا رَكْعَتَيْنِ». فَقُلْتُ: مَا خُصًّا؟ قَالَ: «بَيْتٌ مِنْ قَصَبٍ»

الدر المختار وحاشية ابن عابدين (رد المحتار) (2/ 121)

(من خرج من عمارة موضع إقامته) من جانب خروجه وإن لم يجاوز من الجانب الآخر.

  • ———————————

[رد المحتار]

قوله من خرج من عمارة موضع إقامته) أراد بالعمارة ما يشمل بيوت الأخبية لأن بها عمارة موضعها.

قال في الإمداد: فيشترط مفارقتها ولو متفرقة وإن نزلوا على ماء أو محتطب يعتبر مفارقته كذا في مجمع الروايات، ولعله ما لم يكن محتطبا واسعا جدا اهـ وكذا ما لم يكن الماء نهرا بعيد المنبع، وأشار إلى أنه يشترط مفارقة ما كان من توابع موضع الإقامة كربض المصر وهو ما حول المدينة من بيوت ومساكن فإنه في حكم المصر وكذا القرى المتصلة بالربض في الصحيح، بخلاف البساتين، ولو متصلة بالبناء لأنها ليست من البلدة ولو سكنها أهل البلدة في جميع السنة أو بعضها، ولا يعتبر سكنى الحفظة والأكرة اتفاق إمداد.

وأما الفناء وهو المكان المعد لمصالح البلد كركض الدواب ودفن الموتى وإلقاء التراب، فإن اتصل بالمصر اعتبر مجاوزته وإن انفصل بغلوة أو مزرعة فلا كما يأتي، بخلاف الجمعة فتصح إقامتها في الفناء ولو منفصلا بمزارع لأن الجمعة من مصالح البلد بخلاف السفر كما حققه الشرنبلالي في رسالته وسيأتي في بابها، والقرية المتصلة بالفناء دون الربض لا تعتبر مجاوزتها على الصحيح كما في شرح المنية. أقول: إذا علمت ذلك ظهر لك أن ميدان الحصا في دمشق من ربض المصر وأن خارج باب الله إلى قرية القدم من فنائه لأنه مشتمل على الجبانة المتصلة بالعمران وهو معد لنزول الحاج الشريف فإنه قد يستوعب نزولهم من الجبانة إلى ما يحاذي القرية المذكورة فعلى هذا لا يصح القصر فيه للحجاج وكذا المرجة الخضراء فإنها معدة لقصر الثياب وركض الدواب ونزول العساكر ما لم يجاوز صدر الباز بناء على ما حققه الشرنبلالي في رسالته من أن الفناء يختلف باختلاف كبر المصر وصغره فلا يلزم تقديره بغلوة كما روي عن محمد ولا بميل أو ميلين كما روي عن أبي يوسف. (قوله من جانب خروجه إلخ) قال في شرح المنية: فلا يصير مسافرا قبل أن يفارق عمران ما خرج منه من الجانب الذي خرج، حتى لو كان ثمة محلة منفصلة عن المصر، وقد كانت متصلة به لا يصير مسافرا ما لم يجاوزها. ولو جاوز العمران من جهة خروجه وكان بحذائه محلة من الجانب الآخر يصير مسافرا إذ المعتبر جانب خروجه اهـ وأراد بالمحلة في المسألتين ما كان عامرا أما لو كانت المحلة خرابا ليس فيها عمارة فلا يشترط مجاوزتها في المسألة الأولى ولو متصلة بالمصر كما لا يخفى، فعلى هذا لا يشترط مجاوزة المدارس التي في سفح قاسيون إلا ما كان له أبنية قائمة كمسجد الأفرم والناصرية، بخلاف ما صار منها بساتين ومزارع كالأبنية التي في طريق الربوة ثم لا بد أن تكون المحلة في المسألة الثانية من جانب واحد، فلو كان العمران من الجانبين فلا بد من مجاوزته لما في الإمداد لو حاذاه من أحد جانبيه فقط لا يضره كما في قاضي خان وغيره. اهـ. والظاهر أن محاذاة الفناء المتصل كمحاذاة العمران، بقي هل المراد بالجانب البعيد أو ما يشمل القريب؟ وعليه فلينظر فيما لو خرج من جهة المرجة الخضراء فوق الشرف الأعلى من الطريق فإن المرجة أسفل منه وهي من الفناء كما ذكرناه، وأما هو فإنه بعد مجاوزة تربة البرامكة ليس من الفناء مع أنه منفصل عن العمران بمزارع وفيه مزارع فهل يشترط أن يجاوز ما يحاذيه من المرجة لقربها منه أم لا؟ فليحرر. والظاهر اشتراط مجاوزته لأن ذلك من جانب خروجه لا من جانب آخر.

الفتاوى الهندية – ط. دار الفكر (1/ 139)

 قال محمد رحمه الله تعالى يقصر حين يخرج من مصره ويخلف دور المصر كذا في المحيط وفي الغياثية هو المختار وعليه الفتوى كذا في التتارخانية الصحيح ما ذكر أنه يعتبر مجاوزة عمران المصر لا غير إلا إذا كان ثمة قرية أو قرى متصلة بربض المصر فحينئذ تعتبر مجاوزة القرى بخلاف القرية التي تكون متصلة بفناء المصر فإنه يقصر الصلاة وإن لم يجاوز تلك القرية كذا في المحيط

آپ كى مسائل اور أن كا حل (٣٧٩/٢)

مسافر شہر کی آبادی سے باہر نکلتے ہی قصر پڑھے گا

س….. ایک مسافر جو کہ کسی گاڑی کے ذریعہ سفر کر رہا ہے وہ گاڑی کچھ ہی دیر بعد روانہ ہونے والی ہے یار دانہ ہو چکی ہے لیکن اس نے ابھی ۴۸ میل کا فاصلہ طے نہیں کیا ہے اس وقت اگر نماز کا وقت ہوجاۓ تو کیا اس نماز کو بھی قصر پڑھیں گے؟ ج… جب مسافر ۴۸ میل یا اس سے زیادہ مسافت کے سفر کی نیت کر کے اپنے شہر کی آبادی سے

نکل جاۓ تو قصر شروع ہو جاۓ گی ۔

فتاوى دار العلوم زكريا (٦٣٨/٢)

آبادی بڑھنے وجہ سے دو بستیاں متصل ہو جانے پر سفر شرعی کی ابتداء کا حکم :

سوال: آج کل بعض جگہوں پر آبادی کے بڑھنے کی وجہ سے دو بستیاں متصل ہو جاتی ہیں تو اس حالت میں سفر کا اعتبار کہاں سے ہوگا؟ کیا اپنی بہتی سے یا دوسری متصل بہتی سے؟

الجواب : صورت مسئولہ میں دوسری بہتی اگر متصل ہے لیکن دونوں کے نام علیحد ہ میں اور دونوں کی حدود بھی الگ الگ مقرر ہیں تو دونوں مستقل آبادیاں شمار ہوں گی اور سفر شرعی کا اعتبار اس وقت ہوگا جب کہ اپنی آبادی سے تجاوز کرے ، اور اگر اس طور پر اتصال ہو چکا ہے کہ حکومت کی جانب سے ایک کر دیا ہو اور دوسری بستی پہلی کے لئے بطور محلہ استعمال ہوتی ہو تو یہ شہر کا جز ہے لہذا اب اس سے تجاوز کر نے پرسفر شرعی کے احکام جاری ہوں گے۔

فتاوى قاسمية (٦٦٦/٨)

ســوال [۳۳۷۰]: کیا فرماتے ہیں علمائے دین ومفتیان شرع متین مسئلہ ذیل کے بارے میں: (۱) احقر کا وطن اصلی دہلی میں ہے، گھر (جو دہلی کے ایک محلے میں واقع ہے) سے جاۓ ملازمت ۹۰ کلومیٹر کی دوری پر واقع ہے، جب کہ دہلی کے آخری حصے سے جاۓ ملازمت ۷ کلومیٹر کے فاصلے پر ہے۔ اور گھر سے جاۓ ملازمت کی طرف جاتے ہوۓ گھر اور دہلی کے آخری حصے کے درمیان جنگلات کے ذریعہ فاصلہ بھی ہے، تو اس فاصلے کے ہوتے ہوئے جائے ملازمت پہنچ کر مقیم ہی رہوں گا یا مسافر ہو جاؤں گا؟ اور گھر پہنچے سے قبل دہلی کے کسی بھی حصے میں قصر کا حکم ہوگا یا اتمام کا ؟ (۲) دوسری صورت یہ ہے کہ اگر دہلی کے آخری حصے سے جائے ملازمت مسافت سفر شری ساڑھے بیاسی کلومیٹر پر واقع ہو تو کیا احقر کو غازی آباد میں جائے ملازمت سے آتے جاتے وقت نماز اتمام کرنی ہوگی؟ اس سوال کی وجہ غازی آباد اور دہلی کی آبادی کا اتصال ہے کہ اتصال آبادی کی بنا پر اتمام ہی کا حکم ہوگا؟ محقق و مدلل جواب سے نواز میں ۔ المستفتي: حضرت مولانامحمد ریاست قاسمی ، خادم مدرسہ اعزاز العلوم ویٹ غازی آباد

باسمہ سبحانہ تعالیٰ

الجواب وبالله التوفيق: سلف صالحین اور ائمہ مجتہدین اور فقہاء متقدمین ومتاخرین کے زمانہ میں جو شہر ہوا کرتے تھے وہ بہت بڑے نہیں ہوا کرتے تھے؛ بلکہ بڑے سے بڑا شہر اس طرح ہوتا تھا کہ اس شہر کے تمام باشندے شہر کے ہر حصہ سے مانوس ہوا کرتے تھے اور بڑے سے بڑا شہر بھی ۳۰٫۲۵ کلومیٹر کے طول وعرض سے زیادہ پھیلا ہوا نہیں ہوتا تھا؛ لیکن آج کے دور میں ایسے شہر بھی وجود میں آ گئے ہیں ، جنہوں نے آز و بازو کے کئی شہراور کئی ضلعوں کو اتصال آبادی کے ذریعہ سے اپنے اندر داخل کر لیا ہے، جیسا کہ دہلی سے غازی آباد ۳۰٫۲۵ کلومیٹر کے فاصلہ پر تھا، اس طرح تو یڈیا بھی اتنے فاصلہ پر تھا، پھر اس کے بالمقابل فریدآباد بھی کم و بیش اتنے فاصلہ پر رہا اور اسی طرح گڑگاؤں بھی دہلی سے الگ دوسرے صوبہ کا شہر رہا ہے، آج یہ چاروں شہر دہلی سے متصل ہو کر ایک ہی شہر جیسے بن گئے ہیں، ہاں البتہ سرکاری اعتبار سے ان کی میونسپلٹی الگ الگ ہیں ، اسی طرح بمبئی نے بھی اپنے آزو بازو کے کئی شہروں کو اتصال آبادی کے ذریعہ سے اپنے اندر داخل کرلیا ہے ۔ اور ایسا ہی کلکتہ اور مدراس کا حال بھی ہے کہ اتصال آبادی کے اعتبار سے ایک کنارہ سے دوسرے کنارہ تک ٫۸۰ ۹۰ کلومیٹر سے بھی زیادہ فاصلہ ہو جا تا ہے کہ خودان شہروں کے اتصال آبادی کے اعتبار سے ایک کنارے سے دوسرے کنارے تک پہنچنے میں مسافت سفر کو طے کرنا پڑ جاتا ہے، لہذا ایسے شہروں کے بارے میں وہ حکم نہیں ہوسکتا جو فقہاء کے زمانہ میں بڑے شہروں کا حکم ہوا کرتا تھا، کہ اتصال آبادی کے اعتبار سے شہر کے کسی بھی کنارے پہنچ جائیں تو قصر کا حکم ختم ہو جاۓ ؛ بلکہ ان شہروں کا حکم بالکل الگ اور نئے انداز کا ہوگا؛ کیوں کہ قصر صلاۃ کے مسئلہ کا مدارسفر کی مشقت کے ساتھ ساتھ اجنبیت پر بھی ہے اور ایسے بڑے شہروں میں ایک کنارے کے لوگ دوسرے کنارے میں اجنبی ہو جاتے ہیں ؛ اس لئے ایسے بڑے شہروں کا علم اپنے ایریا کے اعتبار سے ہوگا کہ دہلی کا اریا الگ ہے، غازی آباد کا امر یا الگ اور نو یڈا کا امر یا الگ اور گڑ گاؤں اور فرید آباد کا امر یا اس سے بالکل دوسرا ہے، لہذا غازی آباد کی طرف سے گڑ گاؤں فرید آباد جانے والے لوگ دہلی کی آبادی میں داخل ہونے کے بعد مقیم نہیں ہوں گے؛ بلکہ اس وقت تک مسافر رہیں گے جب تک دہلی سے تجاوز کر کے گڑ گاؤں اور فرید آباد کے ایریا میں داخل نہ ہوں گے، اس طرح فرید آباد اور گڑ گاؤں کی طرف سے غازی آباد یا نویڈا کے باشند سے اس وقت تک مقیم نہیں ہوں گے، جب تک پوری دیلی پار کر کے غازی آباد یا نویڈا کے ایریا میں داخل نہ ہوں گے، نیز دہلی کا رہنے والا آدمی فرید آباد، گڑ گاؤں، نو یڈا، غازی آباد وغیرہ میں داخل ہونے سے مقیم نہیں ہوگا، جب تک دہلی کی اصل آبادی میں داخل نہ ہو جاۓ ، اسی طرح کا حکم ان تمام شہروں میں جاری ہو جاۓ گا جو شہر کی ضلعوں کو شامل ہیں ، اس تفصیل کے بعد دونوں سوالوں کا جواب حسب ذیل ہے: سوال نامہ کے مطابق سائل دہلی کا رہنے والا ہے اور دہلی سے ۹۰ کلومیٹر کے فاصلہ پر ملازمت کرتا ہے، اب اگر دہلی کی اصل آبادی کی حد سے جاۓ ملازمت ساڑھے پیاسی کلو میٹر یا اس سے زیادہ مسافت پر ہے ، تو دہلی کی اصل آبادی کی حدود سے تجاوز کرتے ہی مسافر ہو جاۓ گا۔ اسی طرح واپسی میں غازی آباد یا اس کے مضافات وغیرہ جودہلی کی آبادی سے متصل ہو چکے ہیں، ان میں پہنچنے سے مقیم نہیں ہوگا؛ بلکہ دہلی کی سرکاری حدود میں داخل ہونے کے بعد ہی مقیم ہوگا، اب اس انتہار سے سائل دہلی کی پرانی حدود سے اپنی جاۓ ملازمت کی مسافت کو خود ہی دیکھ لے، اگر ساڑھے بیاسی کلومیٹر یا اس سے زیادہ مسافت ہے، تو اپنے آپ کو مسافر سمجھے گا۔اوراگر اس سے کم ہے تو اپنے آپ کو مقیم سمجھے۔

فتاوی رحیمیہ (٦/٣٦٤)

وطن اصلی یا وطن اقامت کی آبادی سے باہر ہو جانے پر شرعی مسافر کا اطلاق ہوگا ، دوسری آبادی اگر چیتصل ہومگر دوسری آبادی ہے ، دونوں کے نام الگ ہیں حکومت اور کارپوریشن یعنی ( میونسپلٹی نگر پالیکا ) نے دونوں آبادیوں کے حدود الگ الگ مقرر کئے ہیں ، اس لئے وہ دونوں دوستقل آبادیاں ( یعنی شہر شار ہوں گی ، اور شرعی مسافر کا اطلاق اس وقت ہوگا جب کہ اپنی آبادی یعنی شہر کے حدودتجاوز کرے، اور اگر متصل ہونے کی وجہ سے کارپوریشن نے دونوں کو ایک کر دیا ہوتو اب وہ آبادی شہر کا محلہ ہے اور وہ محلہ شہر کا جز ہے لہذا اب اس سے تجاوز ہونے پر مسافرت کے احکام جاری ہوں گے ۔

فتاوى دار العلوم زكريا (٦٣٦/٢)

سوال: مسافت شرعی کا شار گھر سے ہوتا ہے یا حدود شہر سے؟

الجواب : شہر کے آخری مکان سے سفر کی مسافت شرعی شروع ہوگی ، اس سے پہلے سفر شرعی شروع نہیں ہوتا اگر چہ گھر سے نکل جاۓ ۔

 

 

Related Articles

Back to top button