Few questions regarding ‘Aqīqah
Question:
Salam, I have some questions regarding Aqeeqah:
- Is it true that two goats should be slaughtered for a boy and one goat for a girl?
- If yes, do the two goats have to be slaughtered in the same place? Can I do one in America and the other in Bangladesh?
- Do they have to be slaughtered at the time same time/same day?
- Do I have to slaughter them myself?
Answer:
In the Name of Allah, the Most Gracious, the Most Merciful.
As-Salāmu ‘Alaykum Wa-Rahmatullāhi Wa-Barakātuh.
‘Aqīqah is the Mustahabb (preferable) act of slaughtering an animal after the birth of a child as a means of gratitude to Allah ﷻ and protection for the child. The animals permissible for ‘Aqīqah are the same as those permissible for Qurbānī (goat, sheep, cow, camel, etc.). It is recommended that the ‘Aqīqah be performed seven days after the birth of the child (including its date of birth), meaning if the child is born on a Monday, the ‘Aqīqah should be performed on the following Sunday. If not possible, then the 14th day, 21st day, etc. The meat may be eaten, fed to friends and family, or given to charity. Thereafter the child’s head should be shaved and the weight of its hair in gold/silver (or their value) should be given to charity. Saffron may be rubbed on the head of the child as well.[1]
As for your questions:
- Yes, it is preferable that two goats be slaughtered for a boy and one goat for a girl. However, if it is not possible to slaughter two for any reason, one goat will suffice for a boy as well.[2]
- It is not necessary for the goats to be slaughtered in the same place.[3]
- It is not necessary for the goats to be slaughtered at the same time/day.[4]
- It is not necessary for you to slaughter them yourself.
It should be noted that ‘Aqīqah is not compulsory. If one does not have the means or is unable to fulfill any of the aforementioned practices for any reason, one should not feel obligated to do so.
And Allah Ta’ala Knows Best.
Adil Sadique
Student – Darul Iftaa
New York, USA
Checked and Approved by,
Mufti Muhammad Zakariyya Desai.
[1] «حاشية ابن عابدين (ت 1252ه) = رد المحتار ط الحلبي» (6/ 336):
«يستحب لمن ولد له ولد أن يسميه يوم أسبوعه ويحلق رأسه ويتصدق عند الأئمة الثلاثة بزنة شعره فضة أو ذهبا ثم يعق عند الحلق عقيقة إباحة على ما في الجامع المحبوبي، أو تطوعا على ما في شرح الطحاوي، وهي شاة تصلح للأضحية تذبح للذكر والأنثى سواء فرق لحمها نيئا أو طبخه بحموضة أو بدونها مع كسر عظمها أو لا واتخاذ دعوة أو لا، وبه قال مالك. وسنها الشافعي وأحمد سنة مؤكدة شاتان عن الغلام وشاة عن الجارية غرر الأفكار ملخصا، والله تعالى أعلم»
بهشتى زيور،مكتبه تھانوى (3/ 43-42):
جس كے کوئی لڑکا یا لڑکی پیدا ہو تو بہتر ہے کہ ساتویں دن اسکا نام رکھ دے اور عقیقہ کردے۔ عقیقہ کر دینے سے بچہ کی سب الا بالا دور ہو جاتی ہے اور آفتوں سے حفاظت رہتی ہے۔ عقیقہ کا طریقہ یہ ہے کہ اگر لرکا ہو تو دو بکری یا دو بھیڑ اور لڑکی ہو تو ایک بکری یا بھیڑ ذبح کرے یا قربانی کی گائے میں لڑکے کی واسطے دو حصے اور لڑکی کے واسطے ایک حصہ لے لیوے اور سر کے بال منڈوا دیوے اور بال کے برابر چاندی یا سونا تول کر خیرات کردے اور بچہ کے سر میں اگر دل چاہے تو زعفران لگا دیوے۔ اگر ساتویں دن عقیقہ نہ کرے تو جب کرے ساتویں دن ہونے کا خیال کرنا بہتر ہے۔ اور اسکا طریقہ یہ ہے کہ جس دن بچہ پیدا ہوا ہو اس سے ایک دن پہلے عقیقہ کر دے یعنی اگر جمعہ کو پیدا ہوا ہو تو جمعرات کو عقیقہ کر دے اور اگر جمعرات کو پیدا ہوا ہو تو بدھ کو کرے چاہے جب کرے وہ حساب سے ساتواں دن پڑیگا۔ یہ جو دستور ہے کہ جس وقت بچہ کے سر پر استرار کھا جاوے اور نائی سر مونڈنا شروع کرے فوراً اسی وقت بکری ذبح ہو۔ یہ محض مہمل رسم ہے۔ شریعت سے سب جائز ہے چاہے سر مونڈنے کے بعد ذبح کرے یا ذبح کر کے تب سرمونڈے۔ بے وجہ ایسی باتیں تراش لینا برا ہے۔ جس جانور کی قربانی جائز نہیں اُسکا عقیقہ بھی درست نہیں اور جس کی قربانی درست ہے اسکا عقیقہ بھی درست ہے۔ عقیقہ کا گوشت چاہے کچا تقسیم کرے چاہے پکا کر کے بانٹے چاہے دعوت کر کے کھلا دے سب درست ہے۔ عقیقہ کا گوشت باپ، دادا، دادی نانا، نانی، وغیرہ سب کو کھانا درست ہے۔ کسی کو زیادہ توفیق نہیں اسلئے اس نے لڑکے کی طرف سے ایک ہی بکری کا عقیقہ کیا تو اسکا بھی کچھ حرج نہیں ہے۔ اور اگر بالکل عقیقہ ہی نہ کرے تو بھی کچھ حرج نہیں۔
فتاوى محموديه، مكتبه محموديه (26/ 421-420):
جن حضرات نے لکھا ہے کہ عقیقہ کا حکم مثل قربانی کے ہے اس کا مطلب یہ ہے کہ اگر عقیقہ کیا جاوے، تو ایسے جانور کو ذبح کرے جس میں قربانی کی صلاحیت ہو ایسا جانور ذبح نہ کیا جائے، جس کو قربانی میں ذبح کرنا درست نہیں، نیز جس طرح قربانی کے گوشت کا طریقہ ہے کہ خود کھانا احباب کو دینا فقراء کو خیرات کرنا اور آئندہ کے لئے رکھ لینا سب کچھ درست ہے اسی طرح سے عقیقہ کے گوشت کا حکم ہے
[2] فتاوى دار العلوم زكريا، زمزم (6/ 470):
مستحب اور مسنون یہ ہے کہ لڑکے کے عقیقہ میں دو بکرے ذبح کیے جائیں اور لڑکی کے عقیقہ میں ایک بکرا، ہاں اگر وسعت نہ ہو تو لڑکے کی طرف سے ایک بکرا بھی کافی ہو جائے گا۔
[3] فتاوى دار العلوم زكريا، زمزم (6/ 482):
سوال: عقیقہ کہاں کرنا چاہئے؟
الجواب: جہاں بچہ موجود ہو۔ لیکن آج کل ٹیلی فون وغیرہ کا نظام موجود ہے تو اگر جانور ہندوستان میں ذبح کرے اور اطلاع کر کے بچے کے بال جنوبی افریقہ میں اتار دے تو یہ بھی جائز ہے۔ واللہ اعلم۔
[4] «مرقاة المفاتيح لملا علي القاري (ت 1014ه) شرح مشكاة المصابيح» (7/ 2689):
«فيمكن أنه ذبح عنه في يوم الولادة كبشا وفي السابع كبشا، وبه يحصل الجمع بين الروايات، أو عق النبي – صلى الله عليه وسلم – من عنده كبشا. وأمر عليا أو فاطمة بكبش آخر، فنسب إليه – صلى الله عليه وسلم – أنه عق كبشا على الحقيقة وكبشين مجازا، والله أعلم»
فتاوى محموديه، مكتبه محموديه (26/ 414):
ملاعلی قاری نے مرقاۃ شرح مشکوۃ میں دو حدیثوں کے تعارض کو رفع کرتے ہوئے لکھا ہے، “لكن الجمع بين الروايات بانه ذبح عنه في يوم الولادة كبشا وفي السابع كبشا و به حصل الجمع” ایک ذبیحہ یوم ولادت میں کیا اور ایک ساتویں روز کیا، لہذا اگر ذبیحه کے دن ساتواں روز نہ ہو اور نیت عقیقہ کی کر لی تب بھی گنجائش معلوم ہوتی ہے