Adhan and IqamahImamatJama’ahSALAH

Permissibility of Using a Microphone System for Salāh

Question:

السلام عليكم ورحمة الله وبركاته…

1st: Is using a microphone Jaaiz for Salaah?

2nd:Is it jaiz to use a digital recording for Azaan?

If the answer to the 2nd question is no, then if a person is standing on the 120th saff and he hears through a microphone the voice of the imaam, then he hasn’t heard the actual voice of the imaam, it’s a recording that he heard, isn’t it? This will be same as using a recorded voice for Azaan? So how can using a microphone be allowed as an imaam be allowed?

This bring us to the 3rd question

Is سماع الإمام a shart in salaah?

Answer:

In the Name of Allah, the Most Gracious, the Most Merciful.

As-Salāmu ‘Alaykum Wa-Rahmatullāhi Wa-Barakātuh.

Firstly, it is evident that the function of a microphone is merely to amplify and transmit sounds. Based on the numerous researches conducted, it is widely accepted by the prominent Muftiyān-e-Kirām, that the sound being transmitted is in fact the voice of the speaker and cannot be regarded as the voice of an external entity. Therefore, it will be permissible to perform salāh with the usage of a microphone, although some scholars have advised to refrain from it when there is no need.[1]

Secondly, comparing the usage of microphones to the usage of recordings (for adhān or salāh) is clearly unanalogous. A recorder plays those sounds which it has recorded on its own while a microphone transmits only those sounds that are received from a speaker in the moment. So, a recorder can play the sounds independently (once started) unlike a microphone which requires constant receipt of sound (from the speaker). Therefore, playing a recording of the adhān will not suffice for its validity.[2]

Finally, hearing the voice of the imām (for the qirā’ah or the takbīrāt) is not necessary for the validity of the salāh.[3]

And Allah Ta’ala Knows Best.

Sibghatallah ibn Numan Ahmed

Student – Darul Iftaa

Baltimore, Maryland, USA

Checked and Approved by,

Mufti Muhammad Zakariyya Desai.

[1] فتاوى قاسمية لشبير احمد (٧/٣٥٥) اشرفى بك ڈپو – ١٤٣٧

سوال میں ذکر کردہ زید وعمرو کے درمیان بحث کا خلاصہ یہ ہے کہ زید لاؤڈ اسپیکر کی آواز مین آواز متکلم اور عمرو اس کو غیر آواز متکلم ثابت کرنا چاہتا ہے؛ لہذا اس سلسلہ میں علماء کرام اور سائنسدانوں کی کافی تحقیق وجستجو کے بعد اب یہ بات ثابت ہوئی ہے کہ لاؤڈ اسپیکر کی آواز بعینہ متکلم کی آواز ہے جو لاؤڈ اسپیکر کی وجہ سے پہلے سے زیادہ قوی ہو جاتی ہے. یہ آواز آواز بازگشت نہیں؛ لہذا اس کو نماز میں استعمال کرنے سے کسی کی نماز فاسد نہ ہوگی نہ امام کی اور نہ ہی مقتدیوں کی. جب نماز میں اس کا استعمال مضر نہیں تو جمعہ وعیدین میں بھی اس کا استعمال مضر نہ ہوگا؛ البتہ بلا ضرورت اس کو استعمال کرنا بہتر نہیں ہے اور عمرو کا عدم جواز پر اصرار اور اپنے اصرار پر جو دلیل پیش کی ہے وہ عدم تحقیق کی بناء پر ہے. (مستفاد: امداد الفتاوی)

فتاوى دار العلوم زكريا لرضاء الحق (٢/٣٢٦) زمزم پبلشرز – ٢٠٠٨

لاوڈ سپیکر پر نماز پڑھنا بلا کسی شبہ کے جائز اور درست ہے اس کو مشکوک قرار دینا درست نہیں ہے.

[2] كتاب النوازل للمنصورپورى (٣/٣٠٩) دار الاشاعت – ٢٠١٦

ٹیپ ریکارڈ سے بلند ہونے والی آواز صدائے بازگشت کے حکم میں ہے؛ کیوں کہ وہ آلہ غیر مختار سے نکل رہی ہے لہذا ٹیپ ریکارڈ کے ذریعہ اذان دینے سے سنت اذان ادا نہ ہوگی، یہ ایسا ہی ہے جیسا کہ ٹیپ شدہ آیت سجدہ کے سننے سے سجدہ تلاوت واجب نہیں ہوتا.

جديد فقهى مسائل لخالد سيف الله (١/١٣٦-١٣٧) كتب خانه نعيميه – ١٤١٩

ٹیپ ریکارڈ سے نہ امامت درست ہے اور نہ اذان. اس لئے کہ امام اور مؤذن وہی ہو سکتا ہے جو ” ناطق ” اور ” گویا ” ہو اور ٹیپ ریکارڈ میں خود گویائی نہیں ہے بلکہ وہ ایک بے ارادہ غیر مختار ناقل اور حاکی (NARRATOR) ہے جو کسی آواز کی نقل کرتا ہے. اذان وامامت عبادت ہے جو قلب کی کیفیت کے ساتھ انجام دی جاتی ہے اور ٹیپ ریکار ڈ ایک جامد اور غیر حساس شئی ہے جس کی آواز کو عبادت نہیں کہا جاسکتا. اس کی آواز کی حیثیت مستقل ” بول ” کی نہیں ہوتی بلکہ وہ تابع محض ہے. يهى وجہ ہے کہ اگر کوئی شخص ٹیپ پر طلاق دیتے ہوئے کہے “میں نے طلاق دی“ اور اس کو تین دفعہ بجایا جائے تو طلاق ایک ہی واقع ہوگی. اس تکرار کی وجہ سے اصل طلاق میں تکرار نہ ہوگا. کوئی اسی طرح ٹیپ پر ایک ہزار کا اقرار کرے اور اسے بار بار بجاتا جائے تو اقرار ایک ہی ہزار کا ہوگا. تین ہزار کا نہ ہوگا اس لئے کہ اس آواز کی حیثیت تاربیع کی ہے. لہذا اس طرح دی گئی اذان اور امامت، اذان اور امامت نہ ہوگی بلکہ محض اس کا صوتی اور لفظی تکرار ہو گا.

[3] نور الإيضاح ونجاة الأرواح للشرنبلالي ت ١٠٦٩ه (٦٤) المكتبة العصرية

ولا حائط يشتبه معه العلم بانتقالات الإمام فإن لم يشتبه ‌لسماع ‌أو ‌رؤية صح الاقتداء.

Related Articles

Back to top button