Important TopicsMISCELLANEOUS

Is voting permissible?

Question:

Assalamualaikum, recently I have been hearing differing opinions in regards to voting? I just wanted to know what the ruling is in regards to this

Answer:

In the Name of Allah, the Most Gracious, the Most Merciful.

As-Salāmu ‘Alaykum Wa-Rahmatullāhi Wa-Barakātuh.

Voting is permissible. As Muslims living in non-Muslim countries, we must abide by the laws of the land. Voting is means of ensuring that those laws do not conflict with our Dīn, but rather, aid in preserving it.

Voting is also a means of opposing the injustices committed by our governments. The Prophet ﷺ has advised:

‌”مَنْ ‌رَأَى مِنْكُمْ ‌مُنْكَرًا فَلْيُغَيِّرْهُ بِيَدِهِ، فَإِنْ لَمْ يَسْتَطِعْ فَبِلِسَانِهِ، فَإِنْ لَمْ يَسْتَطِعْ فَبِقَلْبِهِ، وَذَلِكَ أَضْعَفُ الْإِيمَانِ.” (صحيح مسلم)[1]

“Whoever among you sees an evil should change it with his hand; and if he is unable to do so, then he should change it with his tongue; and if he is unable to do so, then he should hate it with his heart; and that is the weakest form of Īmān.” (Sahīh Muslim)

Muslims should use the democratic system to their advantage and vote for the candidates that hold the interests of Muslims in mind. If one votes for a party that aids in the progression and protection of Islam, then they will also share in the rewards. Similarly, it should be borne in mind that if one intentionally votes for a party involved in oppression and injustice, then they will also be held liable for their actions.

However, the current political climate in most countries nowadays is such that no party is free of fault and can guarantee that the tenants of Sharī’ah will be fully upheld. In such cases, Muslims should vote for whichever party appears to be less detrimental to the Dīn in an attempt to minimize the inevitable harm as much as possible.[2] If this is difficult to ascertain, one should consult with local scholars for guidance.

And Allah Ta’ala Knows Best.

Checked and Approved by,
Mufti Muhammad Zakariyya Desai.

[1] «صحيح مسلم (ت 261ه) ط التركية» (1/ 50):

78 – (49) حدثنا ‌أبو بكر بن أبي شيبة، حدثنا ‌وكيع، عن ‌سفيان، (ح) وحدثنا ‌محمد بن المثنى، حدثنا ‌محمد بن جعفر، حدثنا ‌شعبة كلاهما، عن ‌قيس بن مسلم، عن ‌طارق بن شهاب، وهذا حديث أبي بكر قال: «أول من بدأ بالخطبة يوم العيد قبل الصلاة مروان، فقام إليه رجل، فقال: الصلاة قبل الخطبة، فقال: قد ترك ما هنالك، فقال ‌أبو سعيد: أما هذا فقد قضى ما عليه، سمعت رسول الله صلى الله عليه وسلم يقول: ‌من ‌رأى منكم ‌منكرا فليغيره بيده، فإن لم يستطع فبلسانه، فإن لم يستطع فبقلبه، وذلك أضعف الإيمان.»

[2] «الأشباه والنظائر لابن نجيم (ت 970ه)، دار الكتب العلمية» (ص 76):

«‌‌الرابعة: [إذا تعارض مفسدتان روعي أعظمهما ضررا بارتكاب أخفهما]

نشأت من هذه القاعدة قاعدة رابعة، وهي ما: إذا تعارض مفسدتان روعي أعظمهما ضررا بارتكاب أخفهما”. قال الزيلعي في باب شروط الصلاة: ثم الأصل في جنس هذه المسائل أن من ابتلي ‌ببليتين، وهما متساويتان يأخذ بأيتهما شاء، وإن اختلفا يختار أهونهما؛ لأن مباشرة الحرام لا تجوز إلا للضرورة ولا ضرورة في حق الزيادة»

شرح المجلة للأتاسي (ت 1326ه)،  مكتبة رشيدية (1/ 63-65):

المادة 27 – الضرر الأشد يزال بالأخف.

هذه القاعدة قيد للمادة (20) يعني أن الضرر إنما يزال إذا لم يتأت من إزالته ضرر مثله أو أشد. وإلا فإذا دار الأمرين بين ضررين، فيتحمل الأخف لإزالة الأشد…

المادة 28 – إذا تعارضت مفسدتان روعي أعظهما ضررا بارتكاب أخفهما…

المادة 29 – يختار أهون الشرين.

جواهر الفقه، مكتبه دار العلوم كراچى (2/ 300):

اگر کسی حلقہ میں کوئی بھی امیدوار صحیح معنی میں قابل اور دیانت دار نہ معلوم ہو مگر ان میں سے کوئی ایک صلاحیت کار اور خدا ترسی کے اصول پر دوسروں کی نسبت سے غنیمت ہو تو تقلیل شر اور تقلیل ظلم کی نیت سے اس کو بھی ووٹ دے دینا جائز بلكہ مستحسن ہے جیسا کہ نجاست کے پورے ازالہ پر قدرت نہ ہونے کی صورت میں تقلیل نجاست کو اور پورے ظلم کو دفع کرنے کا اختیار نہ ہونے کی صورت میں تقلیل ظلم کو فقہاء رحمہم اللہ نے تجویز فرمایا ہے۔

جديد فقهى مسائل، كتب خانه نعيميه (1/ 458):

ایک شخص کو غیر مفید سمجھنے کے باوجود اس کو ووٹ دینا شہادت زور، جھوٹا مشورہ اور غلط سفارش جیسے گناہوں کا حامل ہے۔

فتاوى دار العلوم زكريا، زمزم (8/ 162-163):

سوال: آج کل کی جمہوریت جس میں لوگوں کے ووٹ سے صدر منتخب ہوتا ہے یا پارلیمنٹ بنتی ہے، کیا یہ شریعت کے اصول کے موافق ہے یا مخالف؟ بینوا توجروا۔

الجواب: اسلامی سیاست میں انتخاب امیر کے لیے چار طریقے ہیں:

ا- بیعت اہل حل وعقد۔ جیسے حضرت ابو بکر صدیق رضی اللہ تعالی عنہ کی خلافت کا قیام ۔…

۲- استخلاف۔ جیسے حضرت ابو بکر صدیق رضی اللہ تعالی عنہ نے حضرت عمر رضی اللہ تعالی عنہ کو خلیفہ اور اپنا جانشیں مقرر فرمایا تھا۔

۳-شوری۔ جیسے حضرت عمر رضی اللہ تعالی عنہ نے چھ آدمیوں کی شوری بنائی تھی۔ اور شوری والوں نے حضرت عثمان بن عفان کو خلیفہ بنایا تھا۔…

٤- استیلاء۔ جیسے بعد کے زمانہ میں ہوتا رہا۔

چنانچہ آج کل کی جمہوریت کی مشابہت قسم اول بیعت عامہ اور قسم سوم شوری کے ساتھ پائی جاتی ہے۔ یعنی لوگوں سے ووٹ لینا گویا مشورہ کی طرح ہے، لہذا اس کو خلاف شریعت نہیں کہا جاۓ گا، اور یہ طریقہ دنیا کے اکثر ممالک میں رائج ہے۔

اگر کوئی یه اشکال کرے کہ یہ یورپ کا طریقہ ہے؟ تو اس کا جواب یہ ہے کہ جب اکثر ممالک مسلمہ میں شوری، بیعت اور استخلاف کا طریقہ مشکل ہے تو اس طریقہ کو اپنانے میں کوئی حرج نہیں۔ ہاں اگر اس یورپ والے طریقہ کی کوئی شق صراحۃ اسلام کے خلاف ہو تو اس کو اپنانا جائز نہیں۔

اس طریقہ کار کی نظیر حضرت یوسف علیہ السلام کے قصہ میں ملتی ہے کہ حضرت یوسف علیہ السلام مصری قانون کے پابند تھے کیونکہ اپنے بھائی کو اپنے پاس رکھنا چاہتے تھے لیکن قانون مصر میں یہ درست نہیں تھا اس لیے ایک تدبیر کی۔

Related Articles

Back to top button