Question:
Few brothers are already taking their Wajib Qurbaani. They want put some money together and buy a share on behalf of their deceased father as isaal-e-Sawaab. Is it permissible to do so?
Answer:
In the Name of Allah, the Most Gracious, the Most Merciful.
As-Salāmu ‘Alaykum Wa-Rahmatullāhi Wa-Barakātuh.
One of the principles for the validity of Qurbaani is that the person making the Qurbaani should be the Maalik (owner) of a full share (either a goat/sheep or one seventh of an ox/cow).[1] In the event where one’s share is less than 1/7, the Qurbaani is not valid.
In the above-mentioned situation, if the brothers collectively purchase a share, the Qurbaani will not be valid.
However, one brother may independently buy the share and make the Qurbaani on his parent’s behalf. Alternately, the brothers may choose a person from amongst them and gift him the money to buy a share on behalf of the deceased father. The Qurbaani will then be considered valid, and the person who performed it will be the owner of the meat.
From Allah’s mercy, it is hoped that the brothers will be rewarded.
And Allah Ta’ala Knows Best.
Muhammud Luqman Moideen
Student Darul Iftaa
Mauritius
Checked and Approved by,
Mufti Muhammad Zakariyya Desai.
[1] الأصل لمحمد بن الحسن (5/ 406 ت بوينوكالن):
قلت: أرأيت إن ذبحت البقرة عن خمسة أو ستة أو ثلاثة هل تجزيهم؟ قال: نعم، يجزئ أن يذبح عن واحد إلى السبعة. قلت: أرأيت إن ذبحت عن ثمانية هل تجزيهم؟ قال: لا. قلت: وهل يجب عليهم أن يعيدوا؟ قال: نعم
المبسوط للسرخسي (12/ 11)
(ولا بأس أن يشترك سبعة نفر في بقرة، أو بدنة). وقال مالك – رحمه الله – يجوز عن أهل بيت واحد بقرة واحدة، وإن كانوا أكثر من سبعة، ولا تجوز
عن أهل بيتين، وإن كانوا أقل من سبعة لقوله – عليه الصلاة والسلام – «على أهل كل بيت في كل عام أضحاة وعتيرة» ومذهبنا مروي عن ابن مسعود وحذيفة – رضي الله عنهما – والاستدلال بحديث «جابر – رضي الله عنه – قال اشتركنا يوم الحديبية في البقرة والبدنة فأجاز النبي – عليه الصلاة والسلام – البقرة عن سبعة والبدنة عن سبعة» والمراد بذكر أهل البيت قيم البيت؛ لأن اليسار له عادة. وقد ذكر في بعض الروايات «على كل مسلم في كل عام أضحاة وعتيرة» ويستوي إن كان قصدهم جميعا التضحية، أو قصد بعضهم قربة أخرى عندنا
تحفة الفقهاء (3/ 85)
ولا تجوز الشاة عن أكثر من الواحد وإن كانت عظيمة قيمتها قيمة شاتين لأن القربة إراقة الدم وذلك لا يتفاوت
الدر المختار (٦/٣١٥):
ولو لأحدهم أقل من سبع لم يجز عن أحد، وتجزي عما دون سبعة بالأولى، انتهى۔
الجوهرة النيرة على مختصر القدوري (2/ 187)
قوله: (أو يذبح بدنة أو بقرة عن سبعة)، والبدنة، والبقرة تجزئ كل واحدة منهما عن سبعة إذا كانوا كلهم يريدون بها وجه الله تعالى وإن اختلفت وجوه القرب بأن يريد أحدهم الهدي، والآخر جزاء الصيد، والآخر هدي المتعة، والآخر الأضحية، والآخر التطوع.
الفتاوى العالمكيرية = الفتاوى الهندية (5/ 297):
(وأما قدره): فلا تجوز الشاة والمعز إلا عن واحد، وإن كانت عظيمة سمينة تساوي شاتين مما يجوز أن يضحي بهما، ولا يجوز بعير واحد ولا بقرة واحدة عن أكثر من سبعة، ويجوز ذلك عن سبعة وأقل من ذلك، وهذا قول عامة العلماء
أحسن الفتاوى ج ٧ ص ٥٠٧ –
سوال : کیا اونٹ کی قربانی میں دس آدمی شریک ہو سکتے ہیں ؟ اگر سات سے زیادہ شریک ہو گئے تو کیا ان کی قربانی صحیح ہو جائے گی ؟ بینوا توجروا
الجواب باسم ملهم الصواب
گائے کی طرح اونٹ میں بھی زیادہ سے زیادہ سات شریک ہو سکتے ہیں، سات سے زیادہ ہو گئے تو کسی کی قربانی بھی نہیں ہوگی ۔ واللہ سبحانہ و تعالیٰ اعلم ۔
محمود الفتاوى ج ٣ ص ٩٤ –
مرحوم کی طرف سے قربانی انفراداً
سوال: زید نام کا ایک شخص انتقال کر گیا اور اس کے پیچھے بیٹے اپنے مرحوم باپ کی طرف سے بغیر وصیت کے قربانی کرنا چاہتے ہیں حالاں کہ مرتے وقت زید نے قربانی کی وصیت نہیں کی تھی تو ان کا قربانی کرنا اپنے مرحوم باپ کی طرف سے صحیح ہے یا نہیں؟ اگر جواب اثبات میں ہو تو مرحوم کے ورثا ء اس قربانی سے گوشت کھا سکتے ہیں یا نہیں؟
الجواب حامداً ومصلياً ومسلماً:
اگر میت نے وصیت نہیں کی ہے، تو ورثہ پر میت کی طرف سے قربانی کرنا واجب نہیں ہے، پھر بھی اگر کوئی دارث بالغ ہو اور اپنے روپئے سے حصہ لے کر یا پورا جانور خرید کر میت کو ثواب پہنچائے تو شرعاً درست ہے ، اور اس کا گوشت خود بھی کھا سکتا ہے، اور دوسروں کو بھی دے سکتا ہے ۔ (شامی ۲۲۹/۵)
یہ یادر ہے کہ تمام بیٹے مجموعی طور پر ایک حصہ یا جانور خرید کر باپ کی طرف سے نہیں کر سکتے ، ہر ایک یا کوئی ایک انفرادی طور پر کر سکتا ہے۔ فقط واللہ سبحانہ و تعالی اعلم ۔ حررہ: العبد احمد عفی عنہ خانپوری ، ۲٦ / ذوالقعده ۱٤۰۷ھ
امداد الفتاوى): ج٨ ص ٣٠٣ (قدیم ۵۷۳/۳)
سوال(۲۲۵۵( – اگر فوت شده عزیزوں یا اہل بیت یا خاص رسول الله صلی اللہ علیہ وسلم کی طرف سے قربانی كى جاوے تو اس کى کيا طر یقہ هے آیا مثل دیگر شرکاء کا ہر ایک شخص کی طرف سے ایک ایک حصہ ہی میں چندکوشریک کر دے، فقط؟
الجواب: ایک ہی میں سب کو ثواب بخش سکتے ہیں (۲) ۔ فقط تاریخ الا تمه خامسه ۷۵)
میں نے گذشتہ سال زبانی فتوی دیا تھا کہ جس طرح اپنی طرف سے قربانی کرنے میں ایک حصہ دو شخصوں کی طرف سے جائز نہیں، اسی طرح غیر کی طرف سے تبرعا نفل قربانی کرنے میں خواہ زندہ کی طرف سے یامیت کی طرف سے، ایک حصہ دوشخص کی طرف سے جائز نہیں، مگر روایات سے اس کے خلاف ثابت ہوا اس لئے میں اس سے رجوع کر کے اب فتوی دیتا ہوں، کہ جو قربانی دوسرے کی طرف سے تبرعا کی جاوے چونکہ وہ ملک ذابح کی ہوتی ہے ، اور صرف اس دوسرے کو ثواب پہنچتا ہے۔ اس لئے ایک حصہ کئی کی طرف سے بھی ہوسکتا ہے، جیسا کہ مسلم میں ہے کہ اپنی طرف سے ایک حصہ قربانی کر کے متعدد کو ثواب پہنچانا جائز ہے پس یہ بھی ویسا ہی ہے ۔