Fatwa

Permissibility of Organ Donation (Lung)

Question:

Assalaam Mufti

Is lung donation permissible because one of my frends mother needs a lung urgently? please advise

shukran

Answer:

In the Name of Allah, the Most Gracious, the Most Merciful.

As-Salāmu ‘Alaykum Wa-Rahmatullāhi Wa-Barakātuh.

The body of a human being is a venerated creation and property of Allāh ﷻ solely for the use of the one whom it was bestowed to; hence, any transfer of body parts is impermissible.[1] However, due to the necessity of life preservation, some concessions are found provided that certain conditions are met.

Therefore, if specialists have diagnosed an individual to be in urgent need of an organ transplant and stated that the prospect of his survival after the receipt of this organ is dominant, then it will be permissible for him to get a transplant.[2]

As for its donation, then it is only permissible with the following conditions:

1.      It must be done willingly.

2.     It must not cause the doner any significant harm.

3.     It must be an internal organ (not an external one).

4.     It must be given free of cost.

5.     It must be done to save the life of a specific recipient.

6.     It must be the last resort for the recipient (i.e., in the absence of any artificial or other available organs).[3]

Therefore, if the abovementioned conditions are met for both the doner and the recipient, it will be permissible to donate a part of one’s lung (lobe) to their friend’s mother.

And Allah Ta’ala Knows Best.

Sibghatallah ibn Numan Ahmed

Student – Darul Iftaa

Baltimore, Maryland, USA

Checked and Approved by,

Mufti Muhammad Zakariyya Desai.


[1] شرح مختصر الكرخي للقدوري ت ٤٢٨ه (٩/٣٢١-٣٢٢) أسفار – الأولى

قال أبو حنيفة: فإن سقطت ثنية رجل، كره [له] أن يعيدها ويشدها بفضة أو ذهب، ولكن يأخذ سن شاة ذكية، فيشدها مكانها، وخالفه أبو يوسف فقال: لا بأس أن يشدها بثنية مكانها. قال: ولا يشبه سنه سن الميت، أستحسن ذلك، وبينهما فصل عندي وإن لم يحضرني ذلك. وجه قول أبي حنيفة: أن السن إذا انفصلت صارت في حكم من الميت، ألا ترى أنها زالت عن الخلقة، فكما يكره أن ينتفع بسن غيره فكذلك بسنه. وأما أبو يوسف فيقول: إن السن لا تتنجس بالانفصال؛ لأنه لا حياة فيها، وإنما يكره من غيره؛ لأن ذلك مستقذر في العادة، وهذا المعنى لا يوجد في سنه.

بدائع الصنائع في ترتيب الشرائع ت ٥٨٧ه (٤/٣١٦) دار الكتاب ديوبند

ولو سقط سنه يكره أن يأخذ سن ميت فيشدها مكان الأولى بالإجماع، وكذا يكره أن يعيد تلك السن الساقطة مكانها عند أبي حنيفة ومحمد رحمهما الله ولكن يأخذ من شاة ذكية فيشدها مكانها. وقال أبو يوسف رحمه الله: لا بأس بسنه، وبكره من غيره قال: ولا يشبه سنه سن ميت استحسن ذلك وبينهما عندي فصل ولكن لم يحضرني. ووجه الفصل له من وجهين: أحدهما: أن سن نفسه جزء منفصل للحال عنه لكنه يحتمل أن يصير متصلاً في الثاني بأن يلتتم فيشتد بنفسه فيعود إلى حالته الأولى وإعادة جزء منفصل إلى مكانه ليلتثم جائز كما إذا قطع شيء من عضوه فأعاده إلى مكانه، فأما من غيره فلا يحتمل ذلك والثاني: أن استعمال جزء منفصل عن غيره من بني آدم إهانة بذلك الغير والآدمي بجميع أجزائه مكرم ولا إهانة في استعمال جزء نفسه في الإعادة إلى مكانه. وجه قولهما: أن السن من الآدمي جزء منه فإذا انفصل استحق الدفن ككله والإعادة صرف له عن جهة الاستحقاق فلا تجوز وهذا لا يوجب الفصل بين سنه ومن وغيره.

فتاوى قاضي خان (٣/٢٤٧) قديمي كتب خانه

مضطر لم يجد ميتة وخاف الهلاك فقال له رجل اقطع يدي وكلها أو قال اقطع مني قطعة فكلها لا يسعه أن يفعل ذلك ولا يصح أمره به كما لا يسع للمضطر أن يقطع قطعة من لحم نفسه فيأكل.

[2] فتاوى قاسمية (٢٣/٢٣٨-٢٣٩) اشرفى بك ڈٹو

دوسرے عزیز کے لیے اپنا گردہ نکلوا کر دینا جائز نہیں ہے، البتہ اضطراری حالت میں ہسپتال میں کسی کا گردہ پہلے سے رکھا ہوا مل جاۓ تو اس کو لگانے کی گنجائش ہے.

[3] فتاوى قاسمية (٢٣/٢٣٩) اشرفى بك ڈٹو

شریعت کے اندر انسان کے کسی عضو سے انتفاع جائز نہیں ہے ،لہذا ایک انسان کا گردہ دوسرے کے اندر لگا نا اصولی طور پر جائز نہیں. لیکن میڈیکل سرورس کے تجربہ سے پتہ چلا ہے کہ ایک گردہ کے ذریعہ سے انسان صحیح سلامت اور صحت مندی کے ساتھ زندگی گذار سکتا ہے، اس لیے اضطراری حالت میں اگر کوئی شخص اپنے کسی عزیز یا دوست کو اس کی جان بچانے کے لیے ایک گردہ کا عطیہ کرتا ہے تو اضطراری حالت مىں اس کی گنجائش ہے.

فتاوى قاسمية (٢٣/٢٥٩) اشرفى بك ڈٹو

موجودہ طبی تحقیق کے مطابق زندہ شخص کے جگر کے بعض حصہ کو دوسرے ضروتمند انسان کو نقل کرنا ممکن ہوگیا ہے، اور عطیہ کرنے والے کے جگر کے بقیہ بچے ہوۓ ے کا چند مہینوں میں مکمل ہو جاتا تجربہ میں آچکا ہے، اس لیے جگر کی منتقل اور پیوند کاری اپنے کسی عزیز یا دوست کے لیے رضاکارانہ طور پر جائز ہے، البتہ خرید وفروخت قطعاً جائز نہیں ہے.

حلال وحرام (١٨٣) زمزم پبلشرز

زندہ شخص کا عضو حاصل کیا جارہا ہو تو ضروری ہوگا کہ خود اس نے اجازت دی ہو اور اس کی وجہ سے خود اس کو ضرر شدید نہ ہو.

فتاوى دار العلوم زكريا (٦/٧٤٧) زمزم پبلشرز

… اس موضوع پر بحث ومناقشہ کے بعد اجلاس کا خیال ہے کہ قاتلین جواز کے استدلالات ہی رائج ہیں اس لیے اجلاس درج ذیل فیصلے کرتا ہے: اول: کسی زندہ انسان کے جسم سے کوئی عضو لینا اور اسے دوسرے انسان کے جسم میں انگار بنا جواس کا ضرورت مند ہواپنی زندگی بچانے کے لیے یا اپنے بنیادی اعضاء کے عمل میں سے کسی عمل کو واپس لانے کے لیے جائز یمل ہے، جو عضو د ینے والے کی نسبت سے کرامت انسانی کے منافی نہیں ہے، دوسری طرف عضو لینے والے کے حق میں نیک تعاون اور بڑی مصلحت کا کام ہے، جو ایک مشروع اور قابل تعریف عمل ہے بشرطیکہ درج ذیل شرا کا موجود ہوں: (۱) عضو کے لینے سے اس کی عام زندگی کو نقصان پہنچانے والاضر نہ لاحق ہوتا ہو کیونکہ شریعت کا اصول ہے کہ کسی نقصان کے ازالہ کے لیے اس جیسے یا اس سے بڑے نقصان کو گوارانہیں کیا جاۓ گا، اور چونکہ ایسی صورت میں عضو کی پیلیکش اپنے آپ کو ہلاکت میں ڈالنے کے مرادف ہو گا ، جوشر ما نا جائز ہے. (۲) عضو دینے والے نے رضاکارانہ طور پر اپنی خواہش سے بغیر کسی دباؤ کے دیا ہو. (۳) شرورت مند مریض کے علاج کے لیے عضو کی پیوند کاری ہی طبی نقط نظر تناممکن ذریعہ رہ گیا ہو. (٤) عضو لینے اور لگانے کے عمل کی کامیابی غالبا یا مادہ یقینی ہو.

Related Articles

Back to top button