Moving Waqf Items of One Masjid to Another
Question:
A musalla was made waqf to a masjid, but they don’t need it and they don’t use it, can the waqif with mutawallis permission give it away to a different masjid where it will be used?
Answer:
In the Name of Allah, the Most Gracious, the Most Merciful.
As-Salāmu ‘Alaykum Wa-Rahmatullāhi Wa-Barakātuh.
In the inquired scenario, it is permissible for the Waaqif to give it to another masjid.[1]
And Allah Ta’ala Knows Best.
Azhar Mownah
Student Darul Iftaa
Mauritius
Checked and Approved by,
Mufti Muhammad Zakariyya Desai.
[1]
الفتاوى الهندية لجنة علماء برئاسة نظام الدين البلخي ط دار الفكر (2/ 458):
رجل بسط من ماله حصيرا في المسجد فخرب المسجد ووقع الاستغناء عنه فإن ذلك يكون له إن كان حيا ولوارثه إن كان ميتا. وعند أبي يوسف – رحمه الله تعالى – يباع ويصرف ثمنه إلى حوائج المسجد فإن استغنى عنه هذا المسجد يحول إلى مسجد آخر والفتوى على قول محمد – رحمه الله تعالى.
حاشية ابن عابدين = رد المحتار ط الحلبي (4/ 359):
(ومثله) في الخلاف المذكور (حشيش المسجد وحصره مع الاستغناء عنهما و) كذا (الرباط والبئر إذا لم ينتفع بهما فيصرف وقف المسجد والرباط والبئر) والحوض (إلى أقرب مسجد أو رباط أو بئر) أو حوض.
…………….
(قوله: ومثله حشيش المسجد إلخ) أي الحشيش الذي يفرش بدل الحصر، كما يفعل في بعض البلاد كبلاد الصعيد كما أخبرني به بعضهم قال الزيلعي: وعلى هذا حصير المسجد وحشيشه إذا استغنى عنهما يرجع إلى مالكه عند محمد وعند أبي يوسف ينقل إلى مسجد آخر، وعلى هذا الخلاف الرباط والبئر إذا لم ينتفع بها اهـ وصرح في الخانية بأن الفتوى على قول محمد قال في البحر: وبه علم أن الفتوى على قول محمد في آلات المسجد وعلى قول أبي يوسف في تأبيد المسجد اهـ والمراد بآلات المسجد نحو القنديل والحصير.
فتاوى محمودية لمحمود حسن گنگوهی بترتيب جديد ط مكتبةمحمودية (21/286)
ایک مسجد کی چٹائی دوسری مسجد میں دینا
سوال :۔ زید جس شہر میں رہتا ہے اس کے ایک محلہ میں ایک مسجد ہے جس میں جائیداد کافی وقف ہے، اور متولی صاحب اس کے مالک ہیں، کیونکہ وہی ساری جائیداد کے متولی ہیں ، اس میں فرش پر بچھانے کے لئے چٹائیاں بہت ہیں بعض ضرورت مسجد سے زائد ہیں تو کیا وہ دوسری کسی مسجد میں اس کی ضرورت کے تحت دے سکتے ہیں ، تو کسی صورت میں مفصل تحریر فرما کر عند الله ماجور ہوں؟
الجواب حامد أو مصلياً: اگر مسجد میں چٹائیاں زائد موجود ہیں اور حفاظت کی کوئی صورت نہیں خراب اور ضائع ہو رہی ہیں تو زائد چٹائیاں ایسی مساجد میں بچھا دینا درست ہے، جہاں ضرورت ہو، متولی اور دیگر اہل الرائے حضرات کے مشورہ سے دے سکتے ہیں، بلا مشورہ نہ دیں تا کہ کوئی فتنہ پیدا نہ ہوئے-
كتاب النوازل لمفتي محمد سلمان منصور پوری ط المركز العلمي للنشر والتحقيق لال باغ مراد آباد (13/460)
الجواب وبالله التوفيق : اگر ایسا زائد سامان ہے کہ موجودہ یا آئندہ اُس کے استعمال کا موقع ہی نہیں ہے اور رکھے رکھے اُس کے ضائع ہونے کا اندیشہ ہے، تو اُسے دوسری مسجد میں دیا جا سکتا ہے۔
ونقل في الذخيرة عن شمس الأئمة الحلواني أنه سئل عن مسجد أو حوض خرب، ولا يحتاج إليه لتفرق الناس عنه، هل للقاضي أن يصرف أوقافه إلى مسجد أو حوض آخر؟ فقال: نعم. (رد المحتار، كتاب الوقف / مطلب فيما لو خرب المسجد أو غيره ٣٥٩/٤ کراچی ، فتح القدير، كتاب الوقف / فصل في أحكام المسجد ٢٣٧/٦ مصطفى البابي الحلبي مصر)
ص 462
الجواب وبالله التوفيق : اگر مسجد میں زائد دریاں موجود ہیں ، تو بغیر واقف کی اجازت کے دوسری مسجد میں لگانا اُصولاً جائز نہیں ہے؛ کیوں کہ واقف کی غرض کے خلاف ہے- لیکن اگر اس مسجد میں رکھے رکھے دریوں کے ضائع ہونے کا اندیشہ ہو، تو اُسے دوسری مسجد میں جہاں ضرورت ہو؛ دے سکتے ہیں۔