Watching Soccer & Supporting Teams
Question:
Assalamualaykum.
Muhtaram Mufti Saheb,
Kindly advise will it be permissible to watch and follow all soccer matches?
Will me support any team be incorrect as I beleive that is my team.
Answer:
In the Name of Allah, the Most Gracious, the Most Merciful.
As-Salāmu ‘Alaykum Wa-Rahmatullāhi Wa-Barakātuh.
It is not permissible to watch or follow the matches or to support the teams.[1] As a Muslim, one should be involved in those activities that are productive and beneficial to oneself and to others with the intention of pleasing Allāh.[2]
And Allah Ta’ala Knows Best.
Sibghatallah ibn Numan Ahmed
Student – Darul Iftaa
Baltimore, Maryland, USA
Checked and Approved by,
Mufti Muhammad Zakariyya Desai.
[1] احسن الفتاوى للدهيانوى ت ١٤٢٢ه (٨/٢١١) ايج ايم سعيد
… چنانچہ کھیلوں کے مقابلوں میں کئی خلاف شرع امور کے ارتکاب، نماز، روزہ جیسے ہم فرائض سے غفلت بلکہ تنفر کے علاوہ قوم کا کروڑوں، اربوں روپے کا سرمایہ کھیل کے میدان بنانے، تماشائیوں کے بیٹھنے کا انتظام کرنے، غیر مسلم کھلاڑیوں کی آؤ بھگت اور یہود وہنود کے ساتھ تعلقات نبھانے جیسی لغویات اور غیرت ایمانیہ کے خلاف حیا سوز حرکات پر خرچ ہوتا ہے. فالی الله المشتکی. بنا بریں کھیل کے مروجہ مقابلوں کا کوئی جواز نہیں، اس لئے ان کے لئے کسی بھی قسم کا تعاون یا دعا کرنا کروانا جائز نہیں، بلکہ ہر شخص پر بقدر استطاعت مسلمان نوجوانوں اور حکومتوں کو ایسی تباہ کن سازشوں سے بچانے کی سعی کرنا فرض ہے. واللہ سبحانہ وتعالی اعلم.
فتاوى قاسمية لشبير احمد (٢٤/٣٧٣-٣٧٥) اشرفى بك ڈپو
جواب:- … (٤) ) ٹی وی پر اہتمام یا غیر اہتمام کے ساتھ کمینٹری دیکھنے میں بہت سارے مفاسد ہیں اولا تماشائی نیم عریاں لڑکیوں کی تصاویر سامنے آنا. ثانیاً ہر چھ بال کے بعد ایڈوٹائز آتا ہے، جو فلم دیکھنے کے مشابہ ہے، نیز نمازوں کا ضیاع، وقت کا ضیاع وغیرہ مفاسد کو شامل ہونے کی وجہ سے ناجائز ہے، اس سے احتراز کرنا اور بچنا نہایت ہی لازم اور ضروری ہے…
كتاب النوازل للمنصورورى (/٥٣٧) دار الاشاعت
سوال:- کیا فرماتے ہیں علماء دین ومفتیانِ شرع متین مسئلہ ذیل کے بارے میں کہ: فٹ بال اور کرکٹ کھیلنا کیسا ہے؟ کیا فٹ بال میچ اور کرکٹ میچ ٹی وی پر دیکھنا جائز ہے؟
باسمہ سبحانہ تعالی الجواب وبالله التوفيق:- آج کل ٹی وی پر میچ دیکھنے کی وبا ایک مرض بن گیا ہے، اُس پر جوا اور ہار جیت کی شرط لگائی جاتی ہے، جو بنص قرآن حرام ہے، عورتیں اور نوجوان لڑکیاں بے شرمی اور بے پردگی کے ساتھ اُسے دیکھنے کے لئے آتی ہیں، نمازیں قضا ہوتی ہیں اور سب سے بڑی بات تو یہ ہے کہ اخلاق کا جنازہ نکل جاتا ہے، اس لئے مسلمانوں کو چاہئے کہ اس لغو اور بے کار چیز کو بالکل چھوڑ دیں، اور عمر کے قیمتی لمحات کو بہت غنیمت سمجھیں، اللہ تعالیٰ قیامت کے دن اس عمر کے بارے میں بھی سوال کرے گا کہ تم نے اپنی عمر عزیز کہاں اور کن کاموں میں صرف کی؟ اس لئے وقت کو غنیمت جان کر حسن کا موقع آنے سے پہلے آخرت کی تیاری کی جائے.
فتاوى دار العلوم زكريا لرضاء الحق (٧/٦٣٨-٦٣٩) زمزم پبلشرز
بصورت مسئولہ فی زمان مروجہ عالمی کھیلوں میں درج ذیل خرابیاں اور مفاسد کے پائے جانے کی وجہ سے ان کا دیکھنا دکھا نا سب ناجائز ہے. چند مفاسد وخرابیاں ملاحظہ کیجئے: (١) ان کھیلوں کو بذات خود مقصود سمجھا جانے لگا ہے. (۲) ان کھیلوں اور کھلاڑیوں سے دلچسپی رکھنے والوں کا انهماک اس قدر بڑھ گیا ہے کہ ضروری کاموں اور فرائض اور ادائے حقوق میں خلل آنے لگا ہے. (۳) بالعموم ان کھیلوں میں بہت وقت ضائع ہو رہا ہے، جمعہ کا مبارک دن بھی کھیل کی نظر ہو رہا ہے. (٤) کھلاڑیوں کو قومی اور ملی ہیرو بنا کر پیش کیا جارہا ہے کہ نئی نسل، حضور کی سیرت، صحابہ، اولیاء، علماء کو اپنا نمونہ اور اسوہ بنانے کے بجائے ان فاسق فاجر کھلاڑیوں کو اپنا آئیڈیل بنارہے ہیں. اسلامی تہذیب مٹانے کے لیے مغربی تہذیب کا یہ کامیاب ہتھیار اور زہر آلود حلوہ ہے. (۵) بعض کھیلوں میں کھلاڑی کا ستر نظر آتا ہے، اور کسی کے ستر کی طرف دیکھنے کی احادیث میں وعید وارد ہوتی ہے. (٦) اپنی پسندیدہ جماعت کی حمایت کرنے کی وجہ سے ہار جیت پر بڑے بڑے جھگڑے جنم لیتے ہیں. (۷) کھیل کے ساتھ ٹی وی پر اشتہارات اور برہنہ یا نیم برہنہ عورتوں کی تصویریں دکھائی جاتی ہیں، نیز کھیل کے میدان پر مردوں اور عورتوں کا اختلاط ہوتا ہے. یہ مناظر اخلاق کو تباہ کر کے جذبات شہوانیہ کو برانگیختہ کرتے ہیں اور قسم قسم کے جرائم اور گناہ کا پیش خیمہ بن جاتے ہیں.
[2] موطأ مالك (رواية يحيى) ت ١٧٩ه (٢/٩٠٣) دار إحياء التراث العربي
باب ما جاء في حسن الخلق – ٣: وحدثني عن مالك، عن ابن شهاب، عن علي بن حسين بن علي بن أبي طالب، أن رسول الله صلى الله عليه وسلم قال: «من حسن إسلام المرء تركه ما لا يعنيه.»
سنن الترمذي ت ٢٧٩ه (٤/٥٥٨) مصطفى البابي الحلبي – الثانية
باب – ٢٣١٧: حدثنا أحمد بن نصر النيسابوري، وغير واحد، قالوا: حدثنا أبو مسهر، عن إسماعيل بن عبد الله بن سماعة، عن الأوزاعي، عن قرة، عن الزهري، عن أبي سلمة، عن أبي هريرة، قال: قال رسول الله صلى الله عليه وسلم: «من حسن إسلام المرء تركه ما لا يعنيه» هذا حديث غريب لا نعرفه من حديث أبي سلمة، عن أبي هريرة، عن النبي صلى الله عليه وسلم إلا من هذا الوجه.