Can I use interest money to pay bank charges/fees?
Question:
Salams
I would like to know if you are allowed to pay bank charges/fees with interest money
Thanks
Answer:
In the Name of Allah, the Most Gracious, the Most Merciful.
As-Salāmu ‘Alaykum Wa-Rahmatullāhi Wa-Barakātuh.
In principle, money received through interest must be returned to its original owner. If that is not possible, then it should be given in sadaqah without intending any reward. It is impermissible to take benefit from such wealth.[1]
Accordingly, if the interest is received from a bank, then it may be returned to the same bank by using it to pay off imposed charges that are not in lieu of any services, such as late fees or penalties. Such fees are considered unjust from the perspective of Shari’ah and therefore may be paid off using interest money.
However, it may not be used to pay for services provided by the bank, such as account fees or bills. Utilizing interest money for such fees is akin to taking benefit from it, since one receives the benefit of services by means of such payments.[2]
If the interest is received from elsewhere, it cannot be used to pay bank charges/fees as the bank is not the original owner. Rather, it should be returned to its source if possible, or given in sadaqah.
And Allah Ta’ala Knows Best.
Adil Sadique
Student Darul Iftaa
New York, USA
Checked and Approved by,
Mufti Muhammad Zakariyya Desai.
[1] «تبيين الحقائق شرح كنز الدقائق وحاشية الشلبي، المطبعة الكبرى الأميرية» (6/ 27):
«وقال في النهاية قال بعض مشايخنا كسب المغنية كالمغصوب لم يحل أخذه، وعلى هذا قالوا لو مات رجل، وكسبه من بيع الباذق أو الظلم أو أخذ الرشوة يتورع الورثة، ولا يأخذوا منه شيئا، وهو أولى لهم، ويردونها على أربابها إن عرفوهم، وإلا تصدقوا بها؛ لأن سبيل الكسب الخبيث التصدق إذا تعذر الرد على صاحبه»
«الفتاوى العالمكيرية = الفتاوى الهندية، المطبعة الكبرى الأميرية» (5/ 349):
«وإذا مات الرجل وكسبه خبيث فالأولى لورثته أن يردوا المال إلى أربابه فإن لم يعرفوا أربابه تصدقوا به»
«حاشية ابن عابدين = رد المحتار ط الحلبي» (6/ 385):
«ويردونها على أربابها إن عرفوهم، وإلا تصدقوا بها لأن سبيل الكسب الخبيث التصدق إذا تعذر الرد على صاحبه اهـ»
فتاوى محمودیہ، مكتبہ محمودیہ (24/ 347):
سوال:۔ بینک کا سود اگر کوئی شخص لینے کو تیار نہ ہو تو بھی حکومت زبردستی دیتی ہے، تو اس کو لینا حکومت کے قوانین کے مطابق ضروری ہے یا نہیں، دریں صورت کیا کرنا چاہئے اس کا مصرف کیا ہے؟
الجواب حامداومصليا: سرکاری بینک سے حاصل شدہ سود کی رقم غیر واجبی ٹیکس میں سرکار ہی کو دیدیجائے، یا پھر محتاج غرباء کو دیدے ثواب کی نیت نہ کرے۔
فتاوى قاسمية (27/ 320-319):
سوال [۹۰۰٧]: کیا فرماتے ہیں علمائے دین ومفتیان شرع متین مسئلہ ذیل کے بارے میں: کہ یہ جو ہندوستان میں بینک میں روپیہ جمع کر کے اس روپیہ پر بیاج ملتا ہے، وہ لینا مسلمانوں کو جائز ہے یا نہیں؟ اور اگر جائز ہے تو کس طریقے سے لیا جائے اور اس کو کہاں استعمال کیا جائے؟
الجواب وبالله التوفيق: اولا تو جہاں تک ہو سکے بلا ضرورت بینک وغیرہ میں رقم جمع ہی نہ کی جائے اور اگر جمع کردی ہے، تو اس پر ملنے والی فاضل رقم وہان سے وصول کر لی جائے، چھوڑنا درست نہیں، اس کے بعد اگر حکومت کی طرف سے کوئی ناجائز اور جبری ٹیکس آپ کے اوپر لگا ہوا ہے، تو اس میں رقم کو استعمال کرلیں اور اگر کسی قسم کا ٹیکس نہیں ہے، تو پھر اس رقم کو بلا نیت ثواب غرباء پر صدقہ کر دینا واجب ہے۔
جديد فقہی مسائل (4/ 83-82):
بعض بزرگوں نے اس رقم کا مصرف فقراء و مساکین کو قرار دیا ہے اور اس کی دلیل میں یہ بات کہی گئی ہے کہ مال حرام جسے اس کے مالک تک پہنچانا ممکن نہ ہو، فقہاء نے اسے واجب التصدق قرار دیا ہے جیسا کہ عالمگیری اور شامی وغیره کی عبارتوں سے ظاہر ہوتا ہے۔
[2] كتاب النوازل، دار الاشاعت (11/ 359):
سرکاری بینکوں سے ملنے والا سود سرکار کی طرف سے واجب شدہ جبریہ ٹیکسوں مثلا انکم ٹیکس، سیلس ٹیکس، ہاوس ٹیکس وغیرہ میں ادا کرنا بھی درست ہے؛ اس لئے کہ مال حرام کا اصل مالک کو لوٹانا واجب ہوتا ہے، اور ان ٹیکسوں میں خرچ کرنا بھی واپسی کی ایک شکل ہے اور اس حکم میں مال دار اور غریب کے درمیان کوئی فرق نہیں؛ البتہ جو ٹیکس معاوضة واجب ہوتے ہیں، مثلا بجلی ٹیکس یا گاڑیوں کے لئے روڈ ٹیکس یا واٹر ٹیکس ان میں سودی رقم لگانی جائز نہیں؛ کیوں کہ ان کا نفع معاوضہ کی صورت میں مل جاتا ہے۔
فتاوى دار العلوم زكريا (5/ 391-390):
سوال: خالد نے بینک سے ایک لاکھ ريند قرض لے کر اس کے عوض ایک گھر خریدا، بینک والوں نے کہا کہ ہمیں ایک لاکھ دس ہزار واپس کرنا، اب خالد وہ گھر زید کو بیچنا چاہتا ہے ایک لاکھ دس ہزار کے بدلے میں تاکہ وہ اپنا دین ادا کر دے، زید نے کہا کہ وہ ایک لاکھ ریند حلال مال سے ادا کریگا اور دس ہزار سود کا مال دیگا کیا اس طرح کرنا جائز ہے یا نہیں؟
الجواب: سودی لین دین گناہ کبیرہ ہے قرآن و احادیث میں دردناک وعیدیں وارد ہوئی ہیں، اس لیے خالد کو توبہ کرنا چاہئے اور آئندہ کے لیے سودی قرض نہ لینے کا عزم کرنا چاہئے، پھر سود کی رقم کے بارے میں فقہاء نے لکھا ہے کہ یا تو اصل مالک کو واپس کردے اگر مالک معلوم ہے، ورنہ فقراء پر بلا نیت ثواب صدقہ کر دے۔ اور سودی رقم سے سود ادا کرنے کا حکم یہ ہے کہ جس بینک سے سود لیا ہے اسی کو سود کی رقم کسی بھی عنوان سے واپس کر سکتا ہے، لیکن ایک بینک سے لینا اور دوسرے بینک کو واپس کرنا جائز نہیں ہے۔…
نظام الفتاوی میں ہے:
ہر حرام مال کا شرعی حکم یہ ہے کہ جہاں سے ملا ہو وہاں واپس کر سکے تو کردے، پس اس قاعدہ شرعی کے تحت جو رقم سود کے نام پر جہاں سے ملی تھی وہی پہنچادی جائے اس لیے یہ صورت شرعا گنجائش رکھے گی، اور اگر ایسا نہ ہو سکے تو سود کی رقم کا حکم شرعی یہ ہے کہ اس کے وبال سے بچنے کی نیت سے غرباء و مساکین کو بطور صدقہ دیدے۔ (نظام الفتاوی:ا/۱۹۱)
فتاوی عثمانی میں ہے:
البتہ اگر ماضی میں غلطی سے سودی اکاؤنٹ میں پیسے رکھوا دئے گئے ہیں اور سودی قرض لے لیا گیا تو اس طرح تصفیہ کر سکتے ہیں کہ ایک اکاؤنٹ سے لے کر دوسرے میں دے دیں، بشرطیکہ لیا ہوا سود دئے ہوئے سود سے زائد نہ ہو، برابر ہو جائے، لیکن آئندہ کے لیے یہ سلسلہ بالکل بند کردیں۔ (فتاوی عثمیانی: ۳/ ۲۸۰)
جدید فقہی مسائل میں ہے:
اگر کوئی شخص سودی قرض لینے پر مجبور ہو جائے اور قرض لے لے پھر اس کے پاس بینک سے حاصل ہونے والی سود کی ایک رقم موجود ہو تو اس میں کوئی حرج نہیں کہ وہی رقم بطور سود ادا کر دے، اس لیے کہ سود دینا بھی گناہ ہے کیونکہ اس طرح وہ اللہ کے عطا کیے ہوئے مال حلال کو حرام راہ میں خرچ کرتا ہے، اب اگر کوئی شخص سود ہی کی رقم اس راہ میں دے دیتا ہے تو ایک مال حلال کو بے حرمتی سے بچاتا ہے، امید ہے کہ اس پر اس کا مواخذہ نہ ہوگا، مولانا تھانوی کا رجحان بھی اسی طرف ہے۔ ( جدید فقہی مسائل، جلد اول، ص ۲۵۴)۔ والله اعلم۔
فتاوى دار العلوم زكريا (5/ 394-391):
سوال: کیا سودی رقم سے مندرجہ ذیل ٹیکس ادا کرنا درست ہے یا نہیں؟ (۱) آمدنی کا ٹیکس (انکم تیکس)۔ (۲) عارضی، وقتی ٹیکس۔ (۳) ویٹ، (V.A.T) خریدی ہوئی چیزوں کا ١٤ فیصد ٹیکس ادا کرنا قانونا لازم ہوتا ہے۔
اسی طرح میوسپلٹی/بلدیہ کے درج ذیل محصول سودی رقم سے ادا کرنا جائز ہے یا نہیں؟
(1) خالی زمین کا ٹیکس۔ (۲) مکانات کی زمین کا ٹیکس۔ بینوا توجروا۔
الجواب: جہاں تک ہمیں معلوم ہے جنوبی افریقہ کے بینک حکومتی اور سرکاری نہیں ہے بلکہ پرائیویٹ اور خانگی ہوتے ہیں، لہذا حکومتی ٹیکس میں سود كی رقم ادا کرنا درست نہیں ہے، سود كی رقم يا تو جس سے لی ہے اسی کو واپس کر دے یا فقراء اور مساکین کو بلا نیت ثواب صدقہ کر دینا چا ہئے، آج کل دوسری صورت پر عمل در آمد ہے کیونکہ بینک کو واپس کرنے کا کوئی راستہ نہیں ہے۔ مزید براں مذکورہ بالا بعض حکومتی ٹیکس ظلما بھی نہیں ہے کسی نہ کسی صورت میں اس کا فائدہ ہمیں اختیاری یا غیر اختیاری طور پر پہنچتا ہے،لہذا سود سے انتفاع حاصل کرنے کے مترادف ہے۔…
خلاصہ یہ ہے ک ٹیکس دوقسم کے ہیں (۱) منصفانہ جس کا فائدہ کسی نہ کسی صورت میں ہمیں پہنچتا ہے۔ ایسے ٹیکس میں کسی قسم کی سودی رقم دینے کی گنجائش نہیں، چاہے وہ سرکاری بینک کی ہو یا خانگی بینک کی ہو۔ (۲) غیر منصفانہ یعنی وہ ٹیکس جو ظلما عائد کیے جاتے ہیں مثلا انکم ٹیکس سیل ٹیکس وغیرہ اس کا حکم یہ ہے کہ مرکزی اور سرکاری بینک کا سود اس میں ادا کر سکتے ہیں، کیونکہ مالک کو پہنچانے کے مترادف ہے لیکن خانگی اور پرائیویٹ بینک کا سود ادا کرنا جائز اور درست نہیں۔
ملاحظہ ہو جدید فقہی مسائل میں ہے:
ٹیکس جو حکومت عوام سے وصول کرتی ہے وہ دو طرح کے ہیں بعض منصفانہ ہیں اور خود اسلام میں ان کی گنجائش ہے، مثلا پانی، روشنی، سڑک، ہسپتال، لائبریری اور پارک وغیرہ سہولتوں کے بدلے بلدیہ جو ٹیکس لیا کرتی ہے وہ اس کا فائدہ محسوس طور پر ہماری طرف لوٹا دیتی ہے۔
دوسری قسم کے ٹیکس ایسے ہیں جن کو غیر منصفانہ اور نا واجبی کہا جا سکتا ہے، مثلا انکم ٹیکس، شرعی اعتبار سے غیر منصفانہ ہونے کے علاوہ غیر معقول بھی ہیں۔ پہلی قسم کے ٹیکس میں بینک کی سودی رقم دینا درست نہ ہوگا۔
فتاوى دار العلوم زكريا (5/ 413):
سوال: بینک کے سروس چارج میں سودی رقم ادا کرنا جائز ہے یانہیں؟ عام طور پر بینک ماہانہ سروس چارج عائد کرتا ہے، نیز یہ چارج اپنے قرض داروں اور قرض خواہوں دونوں سے تناسب کے ساتھ لیا جاتا ہے، اور یہ چارج عام طور پر بینک کے کار کنان، عملہ اور نگہبان وغیرہ کی اجرت میں ادا کیا جاتا ہے۔ بینوا توجروا۔
الجواب: سروس چارج یعنی بینک کا عملہ جو حساب کتاب یا حفاظت وغیرہ کی ذمہ داری سنبھالتا ہے ان کی اجرت بینک ادا کرتا ہے اور پھر بینک میں رقم جمع کرنے والوں (قرض خواه) یا بینک سے قرض لینے والوں (قرض دار) پر تناسب سے تقسیم کرتا ہے تا کہ ہر ایک اس میں شریک ہو جائے اور سب مل کر اس عملہ کی اجرت ادا کر دیں، تو اصل مسئلہ احتیاج کا ہے جو اس عمل کا محتاج ہے اس کے ذمہ اجرت آئیگی اور بنظر غائر دیکھا جائے تو احتیاج دونوں طرف سے ہے بینک اس معنی میں محتاج ہے کہ لوگوں کی رقوم سے تجارت کر کے نفع حاصل کرتا ہے، اور جمع کروانے والے بھی محتاج ہیں کہ ان کی رقوم کی حفاظت ہو رہی ہے اور جب نکالنا چاہیں نکال سکتے ہیں نیز وہ اپنی ضرورت کی وجہ سے بینک کے دروازے پر حاضر ہوئے بینک نے دعوت پیش نہیں کی تھی، لہذا بینک کا سروس چارج بجاہے اس میں سودی رقم ادا کرنا جائز اور درست نہیں ہے۔ ورنہ سودی رقم سے انتفاع لازم آئیگا اور سودی رقم سے کسی قسم کا انتقاع ازروئے شریعت جائز اور درست نہیں ہے۔ اس لیے اس معاملہ میں بہت احتیاط کی ضرورت ہے۔
The summary of what is mentioned in the Urdu Fatawa is that it is permissible to use interest money received from banks to pay for those taxes which are imposed unjustly. However, it is impermissible to use interest money to pay for those taxes in which there is some benefit for the taxpayer because that would be the same as benefitting from the interest money.
Mufti Rida al-Haqq Sahib clarifies that this permissibility only applies to those banks which are owned by the government, because only then would it be returning to its original owner. However, if the bank is separate from the government (as is the case with most banks in South Africa and other countries), then it is impermissible to use interest money to pay taxes, even if they are unjust.
In the same manner, if a bank imposes unjust fees on its customers, then it will be permissible to pay them using interest money received from that bank. However, if the fees are for services through which the customer benefits, then it will be impermissible to pay them using interest money.