Displaying Animal Skulls and Horns
Question:
السلام عليكم ورحمة الله وبركاته
Could you kindly advise if it is permissible in Islam to display or keep animal skulls and horns in a Muslim household?”
Jazakallah
Answer:
In the Name of Allah, the Most Gracious, the Most Merciful.
As-Salāmu ʿAlaykum Wa-Raḥmatullāhi Wa-Barakātuh
It is permissible to display animal skulls and horns in homes, as this does not fall under the ruling of taṣwīr (image-making). However, this permissibility does not apply to swine, as they are inherently najis (impure).[i]
And Allah Taʿāla Knows Best.
Rukunuddin Bin Jahangir
Student –Darul Iftaa
Milwaukee, WI, USA
Checked and Approved by
Mufti Muhammad Zakariyya Desai
[i] «شرح الجامع الصغير للإمام فخر الدين قاضيخان (المتوفى ٥٩٢ هـ) ط. مكتبة إسماعيل، الطبعة الأولى ١٤٤٣ هـ (٣/٩١٠) بيع عظام الميتة وصوفها، وشعرها
(ولا بأس ببيع عظام الميتة وعصبها، وصوفها، وقرنها، وعقبها، وشعرها، وكذلك الانتفاع بهذه الأشياء)، وقال الشافعي: كلها نجسة، لا يجوز الانتفاع بها ؛ لأنها من أجزاء الميتة. ولنا قوله تعالى: (وَمِنْ أَصْوَافِهَا وَأَوْبَارِهَا وَأَشْعَارِهَا) الآية [النحل : ١٨٠]، أطلق الانتفاع بهذه الأشياء؛ ولأنه لا حياة في هذه الأشياء، حتى لا يتألم بقطعها، وما لا حياة فيه، لا يحله الموت، وتأويل قوله عليه الصلاة والسلام: (الاتنتفع من الميتة بإهاب ولا عصب) : ما دام رطبا. وعظم الخنزير نجس؛ لأنه نجس العين بجميع أجزائه،
«الاختيار لتعليل المختار للإمام الفقيه المحدث عبد الله بن محمود الموصلي (المتوفى ٦٨٣ هـ)» ط. الرسالة العالمية، الطبعة الثانية ١٤٣١ هـ (١/٧١) طهارة جلود الميتة
قال: (وكُلّ إهاب دبغ فقد طَهُرَ) لقوله عليه السلام: «أيما إهاب دبغ فقد طهر». قال: ( إلا جِلدَ الآدَمِي لِكَرامَتِه ) فيحرم الانتفاع بشيء من أجزائه، لما فيه من الإهانة. (و) إلا جلدَ الخِنْزِيرِ لَنَجَاسَةِ عَيْنِهِ قال تعالى: (فَإِنَّهُ رِجْسٌ) [الأنعام: ١٤٥]، وهو أقرب المذكورات فيُصرف إليه.
(١/٧٢) طهارة جلود الميتة
(وشعر الإنسانِ وعَظمُه طاهِرُ) هو الصحيح، إلا أنه لا يجوز الانتفاع به لما بينا. أما الخنزير فجميع أجزائه نجسة لما مر. وعن محمد : أن شعره طاهر، حتى حل الانتفاع به، وجوابه: أنه رُخص للخَرَّازين للحاجة ضرورة.
«تبيين الحقائق للإمام فخر الدين عثمان بن علي الزيلعي الحنفي (المتوفى ٧٤٣ هـ)» ط. دار الكتب العلمية، الطبعة الأولى ١٤٢٠ هـ (١/٤٥٨) باب قضاء الفوائت
قال رحمه الله: ( وكل إهاب دبغ فقد طهر)…. قوله في المتن : (إلا جلد الخنزير والآدمي) قيل الاستثناء تكلم بالباقي بعد الثنيا عندنا
«البناية في شرح الهداية للشيخ المحدث الفقيه بدر الدين أبي محمد محمود بن احمد العيني (المتوفى ٨٥٥)» ط. المكتبة الحقانية (١٠/٢٥٦) باب البيع الفاسد
(ولا بأس ببيع عظام الميتة وعصبها وصوفها وقرنها وشعرها ووبرها والانتفاع بهذا كله) وفي بعض النسخ بذلك كله أشار به إلى المذكورات قبله (لأنها) أي لأن هذه الأشياء (طاهرة لا يحلها الموت لعدم الحياة) لأن الموت لا يحل إلا في محل الحياة.
«البحر الرائق شرح كنز الدقائق للعلامة ابن نجيم (المتوفى ٩٧٠ هـ)» ط. دار الكتب العلمية DKi، الطبعة الأولى ١٤١٨ هـ (٨/٤٢٦) كتاب الصيد
ولأن الاصطياد سبب الانتفاع بجلده أو ريشه أو شعره أو لاستدفاء شره وكل ذلك مشروع.
«فتاوى محموديه مفتي محمود حسن گنگوہی (المتوفى ١٩٩٦ م)» ط. مكتبة محمودية ٢٠٠٩ م (٢٩/٣٠٩) تصویر اور مجسمہ سازی
o شیر کی کھال کیا تصویر کے حکم میں ہے
الجواب حامد أو مصلياً: یہ تصویر کے حکم میں نہیں(١) -فقط واللہ تعالیٰ اعلم
…………………….
(١)اس لئے کہ یہ صرف کھال اور چمڑا ہے اس میں کسی قسم کا بھراؤ کر کے شیر کی شکل نہیں بنائی گئی ہے۔
«فتاوى محموديه مفتي محمود حسن گنگوہی (المتوفى ١٩٩٦ م)» ط. مكتبة محمودية ٢٠٠٩ م (٢٦/١١٣) شکار کا بیان
الجواب حامد أو مصلياً شکار کرنا خواہ حلال جانور کا ہو خواہ حرام جانور کا شرعاً مباح اور درست ہے، جبکہ اس سے شکاری کی کوئی مشروع غرض حاصل ہوتی ہو مثلاً حلال جانور کا گوشت حاصل کرنا مقصود ہو یا کسی جانور کے پر یا بال ، یا کھال ، یا سینگ یا ہڈی وغیرہ کوئی چیز مطلوب ہو یا مثلاً دفع اذیت ہی مقصود ہو ، جیسے بعض اوقات بعض آدمی بندریا بھیڑیے کا شکار کرتے ہیں اگر محض لہو ولعب اور اضاعت وقت مقصود ہو تو نا جائز ہے
«فتاوى حقانية مولانا مفتي عبد الحق (المتوفى ١٩٨٨. م)» ط. حقانیه پشاور (٢/٤٣٣) باب التصاوير
سوال: ”جناب مفتی صاحب! گائے بھینس رکھنے والوں میں رواج کہ جب ان کی گائے یا بھینس کا بچہ مر جائے تو اس کی کھال اتار کر اس میں بھوسہ بھر لیتے ہیں ، جیسے گائے یا بھینس اپنا بچہ تصور کر کے دودھ آسانی سے دے دیتی ہے۔ تو کیا شرعاً یہ تصویر کے حکم میں داخل ہے یا نہیں؟
جواب: صورت مسئولہ میں بچھڑے کی کھال پر تصویر کی تعریف صادق نہیں آتی اور نہ یہ تصویر کے حکم میں ہے، بلکہ ضرورت کی وجہ سے قدرتی پیدا کردہ جسم کو ایک گونہ محفوظ رکھا جاتا ہے ، اس سے یہ تصویر کے حکم میں داخل نہیں ہے، بلکہ بوقت ضرورت ایسا کرنا مرخص ہے۔
«فتاوى دار العلوم زكريا مفتي رضى الحق» ط. زمزم پبلشرز ٢٠١٧ م (٨/١١٧) حیوانات سے متعلق احکام
o جانوروں کی پوست انبازی اور شکار کا تمغا ر کھنے کا حکم:
سوال: شکاری لوگ بعض مرتبہ کوئی اچھے جانور کا شکار کرتے ہیں مثلاً: شیر یا دیگر غیر ماکول جانور کا، پھر اس کی کھال کو دباغت دینے اور صاف کرنے کے بعد اس میں گھاس وغیرہ کوئی چیز بھر کر اس کو بطور یادگار رکھتے ہیں۔ نیز کبھی صرف سر، یا دانت یا سینگ کا تمغا رکھتے ہیں۔ کیا ان چیزوں کا رکھنا جائز ہے یا نہیں؟ بینوا توجروا۔
الجواب: بصورت مسئولہ خنزیز نجس العین کے استثناء کے ساتھ تمام جانوروں کی کھالیں ، شرعی طور پر ذبح کرنے سے پاک ہو جاتی ہیں، نیز دباغت شرعیہ سے بھی پاک ہو جاتی ہیں اور اس کا خارجی استعمال جائز اور درست ہو جاتا ہے۔ بنابریں شکار کا تمغا بنانا اور گھر میں رکھنا جائز اور درست ہے۔
نیز یہ تصویر کے حکم میں نہیں ہے کیونکہ تصویر کا مطلب یہ ہے کہ اپنے ہاتھ کے مصنوع کو اللہ تعالیٰ کی مخلوق کے مشابہ بنانا، اور صورت مسئولہ میں اللہ تعالیٰ ہی کی مخلوق میں کوئی چیز بھر دینا ہے کھال بھی مخلوق خدا ہے اور بھری ہوئی چیز بھی، لہذا یہ تصویر محرم کے حکم میں نہیں ہے ۔ ملاحظہ ہو جانوروں کے اجزاء کا استعمال جائز اور درست ہے.